ایک بڑی کمپنی کے گیٹ کے سامنے ایک مشہور سموسے کی دکان تھی۔لنچ ٹائم میں اکثر کمپنی کے ملازم وہاں آکر سموسے کھا یا کرتے تھے۔ایک دن کمپنی کے ایک منیجر، سموسے کھاتے کھاتے سموسے والے سے مذاق کے موڈ میں آ گیا۔منیجر صاحب نے سموسے والے سے کہا، “یار شاہد، اپنی دکان تم نے بہت اچھی طرح سے سیٹ کی ہے،
لیکن کیا تمہیں نہیں لگتا کے تم اپنا وقت اور ٹیلینٹ سموسے بیچ کر برباد کر رہے ہو؟ سوچو، اگر تم میری طرح اس کمپنی میں کام کر رہے ہوتے تو آج کہاں ہوتے؟ .. ھو سکتا ہے شاید آپ بھی آج منیجر ہوتے میری طرح.. اس بات پر سموسے والے شاھد نے بڑا سوچا۔”اور بولا، “سر یہ میرا کام آپ کے کام سے کہیں بہتر ہے. 10 سال پہلے جب میں ٹوکری میں سموسے فروخت کرتا تھا تبھی آپ کی جاب لگی تھی، تب میں مہینہ بھر میں ہزار روپے کماتا تھا اور آپ کی تنخواہ تھ10 ہزار.ان 10 سالوں میں ہم دونوں نے خوب محنت کی ۔آپ سپروائزر سے منیجر بن گئے۔اور میں ٹوکری سے اس مشہور دکان تک پہنچ گیا۔آج آپ مہینے کے 000 50کماتے ہیں اور میں مہینے کے 60000روپے۔لیکن اس لئے میں اپنے کام کو آپ کے کام سے بہتر نہیں کہہ رہا ہوں.بلکہ یہ تو میں بچوں کی وجہ سے کہہ رہا ہوں.ذرا سوچئے…! کہ سر میں نے تو بہت کم روپوں سے دھندہ شروع کیا تھا۔مگر میرے بیٹے کو یہ سب نہیں جھیلنا پڑے گا۔میری دکان میرے بیٹے کو ملے گی. میں نے زندگی میں جو محنت کی ہے، اس کا فائدہ میرے بچے اٹھائیں گے.جبکہ آپ کی زندگی بھر کی محنت کا فائدہ آپ کے مالک کے بچے اٹھائیں گے
۔اب آپ اپنے بیٹے کو ڈائریکٹ اپنی پوسٹ پر تو نہیں بٹھا سکتے نا ؟اسے بھی آپ ہی طرح زیرو سے شروعات کرنی پڑے گی .. اور اپنی مدت کے اختتام میں وہیں پہنچ جائے گا جہاں ابھی آپ ہو،جبکہ میرا بیٹا بزنس کو یہاں سے اور آگے لے جائے گا..اواپنےورمیں ہم سب سے بہت آگے نکل جائے گا ..اب آپ ہی بتائیے کہ کیسے میراوقت اور ٹیلنٹ برباد ہو رہا ہے؟ “منیجر صاحب نے سموسے والے کو2د سموسےکے20دروپے دیئے اور بغیر کچھ بولے وہاں سے کھسک گیا۔.