جانوروں کے جسم میں ایک خاص قسم کی جوئیں پائی جاتی ہیں۔ جب کسی کتے یا بلی کو یہ پڑ جائیں تو اسے فوراً ویٹ کے پاس لجانا پڑتا ہے۔ وہ خاص قسم کی دوائیں استعمال کر کے ان جوؤں کو اس کے جسم سے خارج کر دیتے ہیں اور پھر ان کو ایک مرتبان میں ڈال دیتے ہیں۔ جب یہ تمام جوئیں مرتبان میں ڈل جاتی ہیں تو وہ چھلانگیں لگا لگا کر باہر نکلنے کی کوشش میں مصروف ہو جاتی ہیں۔
ایسے میں بہت سی جوئیں بار بار اوپر لگے ڈھکن سے جا ٹکراتی ہیں ۔ جب ان کو بار بار ضربیں لگتی ہیں تو وہ اتنی اونچی چھلانگیں لگانے سے گریز کرتی ہیں کہ ان کو اوپر ڈھکن سے ٹکرانا پڑے۔ کچھ منٹ گزرنے کے بعد ان میں سے کوئی ایک بھی اونچی چھلانگ نہیں لگاتی بلکہ وہ اپنی جگہ پر ہی کود تی رہتی ہیں۔ایسے میں اگر کوئی شخص ان کے مرتبان سے ڈھکن اتار بھی دے تو بھی وہ ایسیچھلانگ نہیں لگاتیں کہ باہر نکل سکیں کیونکہ ان کی ایسی تربیت ہو چکی ہوتی ہے کہ وہ سمجھتی ہیں کہ ہم میں ادھر سے باہر نکلنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ پیو لو و ایک سائنسدان تھا اور اس نے بالکل اسی طرح کتوں پر ایک تجربہ کیا ۔ وہ کتوں کو کھانا ڈالنے سے پہلے ایک گھنٹی بجاتا تھا۔ جب وہ کچھ دن اسی طرح کرتا رہا تو کتوں کو عادت ہو گئی کہ کھانا ملنے سے پہلے گھنٹی بجے گی۔ چند ہفتو ں بعد اس نے دن کے مختلف اوقات میں گھنٹی بجا کر کتوں کا رد عمل سٹڈی کیا تو اس نے بتایا کہ اب صرف گھنٹی بجنے پر وہ منہ سے رالیں ٹپکانے لگتے ہیں۔ اس تجربے کو پیولو و کا ’کنڈیشننگ ‘ کا تجربہ کہہ کر تاریخ میں رقم کیا گیا۔ حاصل سبق یہ ہے کہ جب کسی انسان کو کسی خاص قسم کا ماحول ملتا ہے تو وہ اس کا عادی ہو جاتا ہے۔ اگر اچھی بات پر حوصلہ افزائی ملے تو وہ اچھے کام کرنے میں وقت سرف کرتا ہے۔اگر بری حرکتوں پر شاباش ملتی رہے تو وہ بری عادتوں کو اپنا لیتا ہے۔ عادتیں ہماری کردار متعین کرتی ہیں اور اسی طرح ہماری زندگی اور ہماری قسمت بن جاتی ہے۔ جب کسی کو مسلسل یہ بولا جائے کہ تم یہ نہیں کر سکتے تو وہ اس بات پر یقین کر لیتا ہے کہ وہ کسی بھی کام کوبخوبی کرنے کے لیے نا اہل ہے۔
حالات اور واقعات بدل بھی جائیں اور اس کے حق میں بھی جانے لگیں تو وہ اس بات کو کبھی نہیں سمجھ سکتا۔ وہ کبھی اپنی پوری صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لاتا اور کم ہمت انسان کی زندگی گزارتا ہے۔ کسی کو یہ بتانے سے پہلے کہ وہ کسی کام کو کرنے کے قابل نہیں ہے یہ سوچیں کہ اگر آپ کا کوئی اپنا اس کی جگہ ہو تو آپ کیا کریں گے؟ اگر آپ خود وہ شخص ہیں جسے باقی لوگ باور کرواتے ہیں کہ تم میں ہمت اور حوصلہ نہیں ہے یا تم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے تو خود کو لوگوں کی باتوں سے بالکل متاثر مت ہونے دیں بلکہ اس مینڈک کو یاد کریں جو بہرہ ہونے کے باعث ایک گہرے گڑھے سے نکل آیا تھا۔ ہر ایک کی ہر بات سننے اور یقین کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔اپنی سوچ لوگوں کے مطابق مت بنائیں بلکہ انفرادی اور مختلف سوچ اپنانے کی کوشش کریں۔