حضرت حذیفہ بن الیمانؓ آذربائیجان اور آرمینیہ کی جنگ میں (جس میں شام اور عراق کی فوجیں ایک ساتھ تھیں) شریک تھے۔ وہاں انہوں نے اختلاف قرأت کا ہولناک منظر دیکھا توپریشان ہو گئے۔ حضرت عثمانؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: امیرالمومنین! خدا کے لیے امت کی خبر لیجئے۔
قبل اس کے کہ قرآن مجید سے متعلق ان کے اختلافات ایسے ہی شدید ہو جائیں جیساکہ یہود و نصاریٰ کے باہمی اختلافات ہیں۔ ظاہر ہے اتنا اہم اور عظیم الشان کام امیرالمومنین خود اپنی رائے سے انجام دینے کی جسارت نہیں کر سکتے تھے۔ اس لیے آپؓ نے صحابہؓ کی مجلس شوریٰ طلب کی۔ جو کام آپ کرنا چاہتے تھے۔ جب سب ارباب شوریٰ نے متفقہ طورپر اس کی تصویب اور تائید کر دی تو قرآن مجید کا ایک نسخہ جو حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں مرتب ہواتھا اور اب ام المومنین حضرت حفصہؓ کی ملک میں تھا۔ حضرت عثمانؓ نے وہ نسخہ ام المومنین سے عاریۃً لیا اور ایک مجلس مقرر فرمائی جو ارکان ذیل پرمشتمل تھی۔(1) حضرت زید بن ثابتؓ (2) حضرت عبداللہ بن زبیرؓ (3) حضرت سعد بن العاصؓ (4) حضرت عبدالرحمان بن حارث بن ہشامؓ۔ مجلس کو یہ کام سپرد کیاگیا کہ وہ حضرت حفصہؓ کے مصحف کو بنیاد بنا کر قرآن مجید کا ایک نہایت مستند مجموعہ تیار کریں۔ اس مجلس میں صرف حضرت زید بن ثابت انصاری تھے جبکہ باقی تینوں ارکان ناموران قریش تھے۔ اسی بناء پر حضرت عثمانؓ نے مجلس کو ہدایت کی کہ چونکہ قرآن کا نزول لسان قریش پر ہوا۔ اس لیے تینوں ارکان کو جہاں زید بن ثابتؓ سے اختلاف ہو وہاں وہ اپنی قرات کو ترجیح دیں۔ جب یہ مجموعہ تیار ہو گیا تو حضرت حفصہؓ کا مصحف واپس کر دیاگیا اور یہ مجموعہ جس کا نام مصحف عثمانی ہے اس کی متعدد نقلیں تیار کراکے انہیں مختلف شہروں میں بھیج دیاگیا کہ بس اس کو مستند مانا جائے اور اسی کے مطابق قرات اور کتابت کی جائے۔