جب حضورِ اکرمؐ نے حضرت علیؓ کو اپنے گھر میں رہنے کاحکم دیا اور خود ہجرت پر تشریف لے گئے تو منافقین نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ آنحضورؐ حضرت علیؓ کو معمولی حیثیت کا خیال کرکے اور اپنے پر بوجھ سمجھتے ہوئے چھوڑ گئے ہیں۔
منافقین کی یہ باتیں حضرت علیؓ تک پہنچیں تو آپؓ نے اپنا اسلحہ اٹھایا اور نکلے، یہاں تک کہ نبی کریمؐ کے پاس پہنچے، حضورؐ اس وقت مدینہ کے قریب مقام ’’جرف‘‘ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ حضرت علیؓ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور عرض کیا: اے اللہ کے نبیؐ! منافقین یہ کہہ رہے ہیں کہ آپؐ مجھے اس لیے چھوڑ آئے ہیں کہ آپؐ مجھے اپنے لیے بوجھ سمجھتے تھے اور مجھے کم حیثیت خیال کرتے تھے۔ نبی کریمؐ نے سختی سے فرمایا کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں میں نے تو محض ان امانتوں کی وجہ سے تجھے پیچھے چھوڑا تھا اب تم واپس جاؤ اور میرے اہل و عیال اور اپنے اہل و عیال کی خبر گیری کرو، اس کے بعد آنحضرتؐ نے حضرت علیؓ سے فرمایا: کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تم میرے لیے ایسے بنو جیسے ہارونؑ ، موسیٰ ؑ کے لیے تھے مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔ (یہ سن کر) حضرت علیؓ کا رنج و غم دور ہوا اور ہونٹوں پر مسکراہٹ کی لہر دوڑ گئی پھر آپؓ مکہ واپس آ گئے۔