امیر المومنین حضرت علیؓ کی مجلس میں ایک ضعیف البدن آدمی آ گھسا، آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی تھیں اور پیشانی ابھری ہوئی تھی اور فقر و حاجت اور افلاس و بھوک کے آثار اس پر ظاہر ہو رہے تھے اور جو کپڑے اس نے پہن رکھے تھے اس میں بے شمار پیوند لگے ہوئے تھے، آہستہ آہستہ قریب آیا اور آپؓ کے سامنے آ کر بیٹھ گیا، اس کے ہونٹ مارے حیاء کے کانپ رہے تھے،
پھر اس نے اپنے اوپر ضبط کرنے کے بعد بارگاہِ خلافت میں اپنی نحیف آواز کے ساتھ عرض کیا: یا امیر المومنین! میں ضرورت مند ہوں، میں نے اپنی حاجت آپؓ کے سامنے پیش کرنے سے پہلے بارگاہِ الٰہی میں بھی پیش کی ہے۔ اگر آپؓ میری حاجت روائی کریں گے تو میں اللہ تعالیٰ کی تعریف اور آپؓ کا شکریہ ادا کروں گا اور اگر آپؓ نے میری حاجت پوری نہ کی تو میں اللہ کی تو تعریف کروں گا اور آپؓ کا عذر قبول کروں گا۔ حضرت علیؓ نے فرمایا: یہ بات زمین پر لکھو، کیونکہ میں پسند نہیں کرتا کہ میں تیرے چہرے پر سوال کی ذلت دیکھوں۔ اس آدمی نے زمین پر لکھ دیا کہ میں حاجت مند ہوں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ ایک جوڑا (کپڑوں کا) پیش کیاجائے۔ جوڑا لایاگیا، آپؓ نے وہ جوڑا اس آدمی کو پہنا دیا۔ پھر اس آدمی نے یہ اشعار کہے۔ ’’آپؓ نے مجھے کپڑوں کا ایسا جوڑا پہنایا جس کی خوبیاں پرانی ہو جائیں گی لیکن میں آپؓ کو حسنِ تعریف کے جوڑے پہناؤں گا اگر آپؓ کو میری حسن تعریف حاصل ہوئی تو آپؓ نے عزت کی چیز کو حاصل کیا اور جو کچھ میں نے کہا ہے آپ اس کا بدل نہیں ڈھونڈیں گے۔ کسی کی تعریف، اس ممدوح کے ذکر کو زندہ رکھتی ہے جیسے شیر کی آواز میدانوں میں اور پہاڑوں میں زندہ رہتی ہے ، تو کبھی بھی خیر کے کام سے بے رغبت نہ ہو جس کی تجھے توفیق ملے، کیونکہ ہر بندے کو اس کے عمل کا بدلہ ملنے والا ہے۔‘‘
(جب حضرت علیؓ نے اس کے اشعار سنے تو) فرمایا: اشرفیاں لاؤ، چنانچہ سو دینار لائے گئے، آپؓ نے اس فقیر کو دے دئیے۔ اصبغ نے کہا: اے امیرالمومنین! آپؓ نے اس کو حلہ (جوڑا) اور سو دینار دے دئیے؟ حضرت علیؓ نے فرمایا: ہاں، میں نے رسول کریمؐ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے، آپؐ نے فرمایا: ’’لوگوں کو ان کے درجات پر اتارو‘‘ میرے نزدیک اس آدمی کا یہی مرتبہ تھا۔