حضرت عمرؓ کی خدمت میں ایک شخص آیا، اس کے ساتھ اس کا بیٹا بھی تھا، دونوں کے درمیان اس قدر مشابہت تھی کہ حضرت عمرؓ حیران ہو گئے، فرمایا ’’میں نے باپ بیٹے میں اس طرح کی مشابہت نہیں دیکھی‘‘ آنے والے شخص نے کہا ’’امیرالمومنین! میرے اس بیٹے کی پیدائش کا بڑا عجیب قصہ ہے، اس کی پیدائش سے پہلے جب میری بیوی امید سے تھی تو مجھے ایک جہادی معرکہ میں جانا پڑا،
بیوی بولی ’’آپ مجھے اس حالت میں چھوڑ کر جا رہے ہیں؟‘‘ میں نے کہا ’’آپ کے پیٹ میں جو کچھ ہے، میں اسے اللہ کے پاس امانت رکھ کر جا رہا ہوں‘‘۔ یہ کہہ کر میں جہادی مہم میں نکل پڑا، ایک عرصہ کے بعد واپس ہوا تو یہ دردناک خبر ملی کہ میری بیوی انتقال کر چکی ہے اور جنت البقیع میں دفن کی گئی ہے، میں اس کی قبر پر گیا، دعاکی اور آنسوؤں سے دل کا غم ہلکا کیا، رات کو مجھے اس کی قبر سے آگ کی روشنی بلند ہوتی ہوئی محسوس ہوئی، میں نے رشتہ داروں سے معلوم کیا تو انہوں نے کہا ’’رات کو اس قبر سے آگ کے شعلے بلند ہوتے دکھائی دیتے ہیں‘‘۔ میری بیوی ایک پاکباز اور بڑی نیک خاتون تھی، میں اسی وقت اس کی قبر پر گیا تو وہاں یہ حیرت انگیز منظر دیکھا کہ قبر کھلی ہوئی ہے، میری بیوی اس میں بیٹھی ہے، بچہ اس کے پاس کسمسا رہاہے اور یہ آواز سنائی دے رہی ہے ’’اے اپنی امانت کو اللہ کے سپرد کرنے والے! اپنی امانت لے لے، اگر تم اس بچے کی ماں کو بھی اللہ کے سپرد کر کے جاتے تو واللہ! آج اسے بھی پاتے‘‘۔ میں نے قبر سے بچہ اٹھایا اور قبر اپنی اصلی حالت پر آ گئی، امیرالمومنین! یہ وہی بچہ ہے۔