ایوب بن شجاع نے اپنا غلام عبداللہ اعرابی کے پاس انہیں بلانے کے لئے بھیجا، غلام نے واپس آکر کہا ’’میں نے انہیں اطلاع تو کر دی لیکن وہ کہہ رہے تھے ، میرے پاس کچھ لوگ بیٹھے ہیں، ان سے فارغ ہو کر آتا ہوں حالانکہ وہ کتابوں کے مطالعے میں مصروف تھے، کتابوں کے سواوہاں کوئی نہ تھا‘‘ کچھ دیر کے بعد عبداللہ آئے تو ایوب نے ان سے پوچھا تمہارے پاس تو کوئی نہ تھا، پھرتم نے غلام سے یہ بات کیسے کہہ دی، عبداللہ نے جواب میں یہ اشعار پڑھے ۔
ہمارے چند عقلمند ہم نشیں ایسے ہیں جن کی باتوں سے ہم نہیں اکتاتے، موجودگی اور عدم موجودگی دونوں صورتوں میں ہم ان کے شر سے محفوظ رہتے ہیں۔ وہ ہمیں گزرے ہوئے لوگوں کے علم، عقل و ادب اور صحت رائے کا فائدہ دیتے ہیں۔نہ ان سے کسی فتنے کا اندیشہ ہے اور نہ بری صحبت کا اور نہ ہی ہم ان کی زبان اور ہاتھ (کے شر) سے ڈرتے ہیں۔ انہیں مردہ کہنے کی صورت میں آپ کو جھوٹا نہیں کہا جا سکتا اور اگر آپ انہیں زندہ کہیں تب بھی آپ کو غلط اور بے عقل نہیں کہا جا سکتا۔