بدھ‬‮ ، 24 ستمبر‬‮ 2025 

وہ مویا ہوا ہوتاہے

datetime 10  مئی‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

دل بادشاہ ہے، دل صحیح ہو تو انسان کے تمام اعمال صحیح ہوتے ہیں، حدیث پاک میں ہے کہ جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہوجائے تو پورا جسم صحیح ہو جاتا ہے اگر وہ خراب ہو جائے تو پورا جسم خراب ہوجاتا ہے اوروہ دل ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے دلوں کو سنوار دے۔ آمین۔

دل کی صفائی
ہم اپنے گھر میں صفائی پسند کرتے ہیں، ذرا بھی کہیں کوڑا کرکٹ نظر آئے عورتوں کو ڈانٹ پڑتی ہے، صفائی کیوں نہیں کی، اپنے گھروں میں صفائی چاہنے والے ذرا غور کریں دل بھی تو اللہ رب العزت کاگھر ہے، اس میں بھی صفائی آنی چاہیے، اس پر جو گناہوں کا میل پڑا ہے، کوڑا کرکٹ بھرا ہے، افسوس ہے کہ ہم نے اسے ردی کی ٹوکری بنارکھاہے، یہ اللہ رب العزت کاگھر ہے وہ بھی چاہتے ہیں کہ یہ دل صاف ہو، جب دل صاف ہو جائے گا تو پھر اللہ رب العزت کی رحمتیں خود بخود اس میں آئیں گی، صفائی کرنے میں ہماری طرف سے دیر ہے، فقہ کامسئلہ ہے کہ جس کمرہ میں (جان دار کی) تصویر لگی ہو اللہ رب العزت کی رحمت کے فرشتے اس گھرمیں نہیں آتے، بالکل اسی طرح جس دل میں کسی کی تصویر بیٹھی ہو گی اللہ رب العزت اس دل میں آنا کیسے پسند فرمائیں گے؟ جب رحمت کا فرشتہ نہیں آتا تو رحمتیں بھیجنے والے کی محبت کیسے آئے گی؟ اس لیے اس دل پر محنت کرنے کی ضرورت ہے۔
دل کی قیمت
دیکھئے انسان کے جتنے بھی اعضاء ہیں وہ اس دل کے تابع ہیں،

دل کے سنورنے سے انسان سنورتا ہے اور دل کے بگڑنے سے انسان بگڑتا ہے۔دل کے بگاڑ ہی سے بگڑتا ہے آدمی۔۔جس نے اسے سنوار دیا وہ سنور گیا۔ایک دفعہ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے دہلی کی جامع مسجد میں خطبہ دیا، فرمایا، مغل بادشاہو! تمہارے خزانوں کی بڑی تعریف سنی ہے لیکن ولی اللہ کے سینہ میں ایک دل ہے تمہارے خزانے سب مل کر بھی اس کی قیمت ادا نہیں کر سکتے، سوچو! یہ دل کتنا قیمتی بن گیاہوگا۔

دل قیمتی کیسے بنتاہے؟
اس دل کو قیمتی بنانے کے لیے اس پر محنت کرنی پڑتی ہے، اس کو سنوارنا پڑتاہے، اس کوبنانا پڑتا ہے، اس سے دنیا کی محبت کو نکالنا پڑتا ہے، الٹی سیدھی خواہشات دل سے نکالنی پڑتی ہیں تب انسان کا دل سنورتاہے، اس میں سے دنیا کی محبت کیسے نکلے؟ اس کے لیے اللہ والوں سے سیکھ کر ذکر کرنا پڑتاہے،

ذکر کرنے سے انسان کادل سنور جاتاہے۔قرآن مجید کی ایک آیت اِنَّ الْمُلُوْکَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْیَۃً اَفْسَدُوْ ھَا وَ جَعَلُوآ اَعِزَّۃَ اَھْلِھَآ اَذِلَّۃ ہے اس کے تحت حضرت اقدس تھانوی نے ایک عجیب تمثیل لکھی ہے فرماتے ہیں کہ اگر ان الملوک سے مراد مالک الملک کانام لیاجائے یعنی اللہ رب العزت اور ان کا نام اور قریۃ سے مراد دل کی بستی لے لی جائے تو فرماتے ہیں کہ پھر اس کے معنی بنیں گے،

اِنَّ الْمُلُوْکَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْیَۃً کہ جب اللہ رب العزت کا نام دل کی بستی میں سماجاتاہے افسدوھا انقلاب مچا دیتا ہے وجعلوا اعزۃ اھلھا اذلۃ اور دنیا جو دل میں معزز بنی ہوتی ہے اس کو ذلیل کرکے دل سے نکال دیاکرتاہے، لہٰذا دوستو! اللہ رب العزت کے ذکر کرنے میں بڑی برکت ہوتی ہے، یہ دنیا کی محبت دل سے نکالتا ہے، اللہ رب العزت کی محبت سے دل کو منور کرتاہے اور جب یہ دل بنا ہوا اور سنورا ہوا ہو تو پھر انسان کی کیفیت ہی کچھ اور ہوتی ہے۔

دل کابگاڑنا آسان ہے
اس دل کا بگاڑنا بڑا آسان ہے، دیکھئے جیسے گھر کے اندر روشن دان ہوتے ہیں اگر وہ کھلے رہیں تو پھرسارے کمرے میں مٹی آتی ہے اسی طرح سے اگر آنکھ، کان وغیرہ کا روشن دان کھلا رہے تو دل کے کمریمیں مٹی آ جاتی ہے اور آج کل کے نوجوان کاتو یہ روشندان بند ہی نہیں ہوتا۔

ایک شخص حسن بصریؒ کے پاس حاضر ہوا، کہنے لگا، حضرت! ہمارے دل سو گئے ہیں، فرمایا وہ کیسے! عرض کیا کہ حضرت! آپ درس دیتے ہیں، وعظ نصیحت کرتے ہیں لیکن دل پر اثر نہیں ہوتا، حضرت نے فرمایا، اگر یہ معاملہ ہے تو یہ نہ کہو کہ دل سو گئے ہیں، یوں کہو کہ دل مو گئے (مر گئے)، وہ بڑا حیران ہوا، کہنے لگا، حضرت! یہ دل مر کیسے گئے! حضرت نے فرمایا،

دیکھو جو انسان سویا ہوا ہو اسے جھنجھوڑا جائے تو وہ جاگ اٹھتاہیاور جو جھنجھوڑنے سے بھی نہ جاگے وہ سویاہوا نہیں، وہ مویا ہوا ہوتاہے، جو انسان اللہ کا کلام سنے، نبیؐ کا فرمان سنے اور پھر دل اثر قبول نہ کرے، یہ دل کی موت کی علامت ہوتی ہے تو ہم اس دل کو مرنے سے پہلے پہلے روحانی اعتبار سے زندہ کرلیں، جب یہ دل سنور جائے پھر اس میں رب العزت کی محبت بھر جاتی ہے پھر اس کی کیفیت ہی کچھ اور ہوتی ہے؟

دل گلستاں تھا تو ہرشے سے ٹپکتی تھی بہار۔۔یہ بیاباں جب ہوا عالم بیاباں ہو گیا۔یہ اللہ والوں کی کیفیت ہوتی ہے، ان کا دل اللہ کی محبت سے بھرا ہوا ہوتاہے، پھر اللہ کے سوا کسی اور کی جانب دھیان ہی نہیں جاتا، پھر بندہ کا دل قیمتی بن جاتا ہے، اس دل کو سنوارنے کے لیے مشائخ باقاعدہ ذکر بتاتے ہیں، ہم ان کو باقاعدگی سے کریں تاکہ دل اللہ رب العزت کی محبت سے لبریز ہوں، پھر ہمیں راتوں کو اٹھنے میں مزہ آئے گا،

پھر ہمیں راتوں کو اٹھنے کے لیے گھڑیوں کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ بستر ہی اچھال دے گا، حضرت ڈاکٹر حفیظ اللہ مہاجر مدنیؒ جب بیان میں اہل دل کے واقعات سناتے تو فرماتے کہ ان لوگوں کا دل بنا ہواتھا، اے اللہ ہمارے دل کو بھی سنوار دیجئے۔
دل کی غذا

حکیم الامت حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں کہ جیسے پیٹ کی غذا الگ ہے ماکولات و مشروبات اورآنکھ کی غذا الگ ہے مبصرات اور کان کی غذا الگ ہے مسموعات۔ اسی طرح دل کی بھی ایک غذا ہے اور وہ محبت ہے۔ دل کی غذا محبت کے سوا کچھ نہیں۔ دل کو اس میں لذت آتی ہے۔ پھر جس کا محبوب ناقص ہو اس کی لذت تو ناقص ہو گی اور جس کا محبوب ایسا کامل ہو کہ اس سے زیادہ کوئی بھی محبوب نہ ہو اس کی لذت سب سے زیادہ ہوگی۔ ایمان دعمل صالح اختیار کرنے پر دنیا ہی میں غذائے روحانی یعنی حق تعالیٰ کی محبت کامل عطا ہو گی جس سے زیادہ دل کی کوئی غذا نہیں۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



احسن اقبال کر سکتے ہیں


ڈاکٹر آصف علی کا تعلق چکوال سے تھا‘ انہوں نے…

رونقوں کا ڈھیر

ریستوران میں صبح کے وقت بہت رش تھا‘ لوگ ناشتہ…

انسان بیج ہوتے ہیں

بڑے لڑکے کا نام ستمش تھا اور چھوٹا جیتو کہلاتا…

Self Sabotage

ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ…

انجن ڈرائیور

رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…