حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک دیہاتی نے آ کر نبی کریمؐ کی خدمت میں عرض کیا یا رسول اللہؐ! قیامت کے دن مخلوق کا حساب کون لے گا؟حضورؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ‘‘ اس پر دیہاتی نے کہا! رب کعبہ کی قسم پھر تو ہم نجات پا گئے۔ حضور اکرمؐ نے فرمایا:اے دیہاتی کیسے؟ اس نے کہا کیونکہ کریم ذات جب کسی پر قابو پا لیتی ہے تو معاف کر دیتی ہے۔
حضرت صفوانؓ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ ابن عمرؓ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھا کہ ایک شخص آیا اور اس نے کہا آپ نے رسول اللہؐ سے مومن کی جو سرگوشی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے ہو گی اس کے بارے میں کیا سنا ہے؟آپؓ نے فرمایا رسالت مآبؐ سے میں نے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ مومن کو اپنے قریب بلائے گا اور اپنا بازو اس پر رکھ دے گا اور لوگوں سے اسے پردے میں کر لے گا اور اس سے اس کے گناہوں کا اقرار کرائے گا اور پوچھے گا یاد ہے فلاں گناہ تو نے کیاتھا؟ فلاں کیاتھا؟ یہ اقرار کرتا جائے گا اور دل دھڑک رہا ہوگا کہ اب ہلاک ہوا۔۔۔ اتنے میں اللہ تعالیٰ فرمائے گا دیکھ! دنیا میں، میں نے ان گناہوں کی پردہ پوشی کی اور آج ان گناہوں کو معاف کرتا ہوں۔۔۔ پھر اسے اس کی نیکیوں کا اعمال نامہ دیا جائے گا۔حضرت سلمانؓ فرماتے ہیں کہ انسان کو قیامت کے دن نامۂ اعمال دیا جائے گا وہ پڑھنا شروع کرے گا تو اس میں اس کی برائیاں لکھی ہوئی ہوں گی جنہیں پڑھ کر یہ کچھ ناامید سا ہونے لگے گا، اس وقت اس کی نظر نیچے کی طرف پڑے گی تو اپنی نیکیاں لکھی ہوئی پائے گا جس سے کچھ ڈھارس بندھے گی، اب دوبارہ اوپر کی طرف دیکھے گا تو وہاں کی برائیوں کو بھی بھلائیوں سے بدلا ہوا پائے گا۔رسول اللہؐ فرماتے ہیں کہ ایک جہنمی ایک ہزار سال تک جہنم میں چلاتا رہے گا ’’یا حنان یامنان‘‘ تب اللہ تعالیٰ جبرائیل علیہ السلام سے فرمائے گا جاؤ! دیکھو! یہ کیا کہہ رہاہے؟
جبرائیلؑ آ کر دیکھیں گے کہ سب جہنمی برے حال میں سر جھکائے آہ و زاری کر رہے ہیں، جا کر جناب باری تعالیٰ میں خبر کریں گے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا پھر جاؤ! فلاں فلاں جگہ، یہ شخص ہے جاؤ اسے لے آؤ! جبرائیل اسے لا کر اللہ کے سامنے کھڑا کریں گے، اللہ تعالیٰ اس سے پوچھیں گے کہ تو کیسی جگہ میں ہے؟ وہ جواب دے گا کہ خدایا! ٹھہرنے کی بھی بری جگہ ہے اور سونے بیٹھنے کی بھی بدترین جگہ ہے،
اللہ تعالیٰ فرمائیں گے، اچھا اب اسے اس کی جگہ واپس کر آؤ تو یہ گڑگڑائے گا، عرض کرے گا کہ اے میرے ارحم الراحمین اللہ! جب تو نے مجھے اس سے باہر نکالا تو تیری ذات ایسی نہیں کہ تو پھر مجھے اس میں داخل کر دے، مجھے تجھ سے رحم و کرم ہی کی امید ہے، خدایا! بس اب مجھ پر کرم فرما! جب تو نے مجھے جہنم سے نکالا تو میں خوش ہوگیاتھا کہ اب تو اس میں نہیں ڈالے گا اس مالک و رحمان و رحیم خدا کو بھی رحم آ جائے گا اورفرمائے گا اچھامیرے بندے کو چھوڑ دو۔
حضورؐ فرماتے ہیں کہ میں اس شخص کو پہچانتا ہوں جو سب سے آخر میں جہنم سے نکلے گا اور سب سے آخر میں جنت میں جائے گا یہ ایک گناہ گار بندہ ہوگا جسے خدا کے سامنے لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اس کے بڑے بڑے گناہ چھوڑ کر چھوٹے چھوٹے گناہوں کی نسبت اس سے بازپرس کرو۔ چنانچہ اس سے سوال ہوگا کہ فلاں دن تو نے فلاں کام کیاتھا؟ فلاں دن فلاں گناہ کیاتھا؟ یہ ایک کا بھی انکار نہ کر سکے گا،
اقرار کرے گا آخر میں کہا جائے گا کہ تجھے ہم نے ہر گناہ کے بدلے نیکی دی اب تو اس کی باچھیں کھل جائیں گی اور کہے گا اے میرے پروردگار! میں نے اور بھی بہت سے برے اعمال کیے تھے جنہیں یہاں نہیں دیکھ رہا، یہ فرما کر حضور اقدسؐ اس قدر ہنسے کہ آپؐ کے مسوڑھے دیکھے جانے لگے اور فرمایا کہ جنت میں سب سے آخر میں داخل ہونے والے شخص کا یہ حال ہو گا کہ وہ گرتا پڑتا چل رہا ہو گا اور جہنم کی آگ اسے جھلسا رہی ہوگی،
بالآخر جب وہ جہنم سے بمشکل نکل پائے گا تو جہنم کی طرف دیکھ کر بے اختیار کہے گا وہ ذات بڑی بابرکت ہے جس نے مجھے تجھ سے (جہنم سے) نجات عطا فرمائی اور بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ نعمت بخشی ہے جو اولین و آخرین میں سے کسی کو بھی عطا نہیں کی گئی۔ پھر اس کے سامنے ایک درخت ظاہر ہو گا تو وہ عرض کرے گا کہ اے رب کریم! آپ مجھے اس درخت کے قریب کردیجئے تاکہ میں اس کے سائے میں بیٹھوں اور اس کے پانی سے پیاس بجھاؤں،
اس پر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ اے آدمی! اگر میں تیری مراد پوری کر دوں تو تو کچھ اور مانگے گا؟ وہ شخص کہے گا کہ نہیں پروردگار! اور مزید سوال نہ کرنے کاپختہ وعدہ کرے گا اسے اس کے مطلوبہ درخت کے نیچے پہنچا دیا جائے گا۔ وہ شخص اس کے قریب جا کر اس کے سائے میں بیٹھے گا اور وہاں موجود پانی پئے گا، پھر اس کے سامنے دوسرا پہلے درخت سے بہتر درخت لایا جائے گا وہ اس کے قریب جانے کی درخواست کرے گا،
اسے اس کا وعدہ یاد دلاتے ہوئے کہا جائیگا کہ تیری یہ مراد پوری کر دوں تو پھر تو کچھ اور سوال کرے گا؟ وہ شخص دوبارہ سوال نہ کرنے کا وعدہ کرے گا اسے اس درخت کے قریب کر دیا جائے گا وہ اس کے سائے اور پانی سے فائدہ اٹھائے گا۔ پھر تیسرا درخت جنت کے دروازے کے بالکل قریب نمودار ہو گا جو پہلے دونوں درختوں سے زیادہ خوبصورت ہو گا تو یہ شخص اس کے قریب جانے کی بھی درخواست کر بیٹھے گا جو پوری کر دی جائے گی۔
اسے وہاں سے اہل جنت کی آوازیں سنائی دیں گی تو وہ جنت میں داخلے کی درخواست بھی کرے گا اللہ تعالیٰ اس سے فرمائیں گے آخر تیسرا سوال کرناکب ختم ہوگا؟ کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ میں تجھے دنیا سے دگنی جنت عطا کر دوں؟ وہ شخص حیرت زدہ ہو کر کہے گا اے رب کریم! آپ رب العالمین ہو کر مجھ سے مذاق کرتے ہیں؟ رب العالمین فرمائیں گے میں تجھ سے مذاق نہیں کر رہا بلکہ میں جس چیز کو چاہوں اس کو پورا کرنے پر قادر ہوں۔
کیا اس کریم ذات سے مایوسی کی کوئی گنجائش ہے؟ کیا ایسی ارحم الراحمین ذات کی نافرمانی نا انصافی نہیں ہے؟ کیا اس سے بڑھ کر ظالم کوئی ہو سکتاہے (اللہ تعالیٰ پوری امت محمدیہ کی بلا استحقاق محض اپنے لطف و کرم سے حفاظت فرمائے۔ آمین) کہ ان مستند و معتبر حکایات کے بعد بھی اطاعت الٰہی میں بمطابق نبیؐ کے عطا فرمودہ طریقوں کے اپنے آپ کو آمادہ نہ پائے؟ پھر دیر کس بات کی ہے رحمت الٰہی اپنی تمام مہربانیوں سمیت پوری طرح ہماری ہی طرف متوجہ ہے۔