علامہ ابن الجوزیؒ فرماتے ہیں۔ انسان کوچاہیے کہ اپنے اوقات کی قدر و قیمت جانے، وقت کو ضائع ہونے سے بچا کر ہر ہر لمحہ نیکی و اطاعت میں صرف کرے، اعمال میں کوتاہی کیے بغیر ہر عملِ خیر میں نیت تو ضرور درست رکھے جیسا کہ حدیث میں ہے ’’مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے‘‘۔ حضراتِ سلف کا یہ حال تھا کہ اپنا ایک ایک منٹ عمل میں لگانے کی کوشش کرتے تھے،
چنانچہ حضرت عامر بن قیسؒ کے بارے میں منقول ہے کہ ان سے ایک شخص نے عرض کیا تھوڑی دیر مجھ سے بات کر لیجئے، آپ نے فرمایا کہ سورج کو روک لو۔ (یعنی سورج اور وقت جب مسلسل چلتا رہے گا تو پھر باتوں میں وقت کو کیوں برباد کیا جائے) حضرت ثابت بنانی کے بیٹے کا بیان ہے کہ میں نے نزع کے وقت اپنے والد کو تلقین شروع کی تو فرمایا بیٹے مجھے چھوڑ دو میں اس وقت اپنے چھٹے وظیفہ میں مشغول ہوں۔ بعض بزرگوں کو لوگوں نے نزع کے وقت بھی نماز پڑھتے دیکھا، ان سے سلسلہ میں جب دریافت کیا گیاتو فرمانے لگے کہ یہ وہ وقت ہے جب میرا نامۂ اعمال بند کیاجا رہا ہے (تو پھر میں اس میں نیکیوں کا اضافہ کیوں نہ کروں) واقعی حقیقت یہ ہے کہ جب انسان کو یہ یقین ہو کہ موت اُسے عمل کے اضافہ سے روک دے گی تو وہ ضرور زندگی میں ایسے اعمال کی کوشش کرے گا جن کااجر اس کو مرنے کے بعد بھی ملتا رہے۔ اگرچہ اس نے زندگی میں کیسے ہی مجاہدے کیے ہوں۔ایک صاحب نے ظہر کی نماز پڑھی، تنگدستی اتنی تھی کہ جوتا بھی ٹوٹ گیا۔ گرمی کا موسم تھا گرم زمین پر ننگے پاؤں چلتے ہوئے یہ مسجد سے گھر کی طرف لوٹنے لگے تو دل میں خیال آیا،
پروردگار! میں تو آپ کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہوں، نمازیں پڑھتاہوں، مسجد کی طرف آتا ہوں، مجھے تو آپ نے جوتا بھی عطا نہ کیا۔ ابھی یہ بات سوچ ہی رہا تھا کہ سامنے سے ایک لنگڑے آدمی کو آتے دیکھا، وہ بیساکھیوں کے بل چل کے آ رہا تھا۔ فوراً دل پر چوٹ لگی کہ اوہو! میں تو جوتے کے نہ ہونے کا شکوہ کرتارہا، یہ بھی توانسان ہے جسے پروردگار نے ٹانگیں بھی عطا نہ کیں، یہ لکڑیوں کے سہارے چلتا ہوا آ رہا ہے تو جب اپنے سے نیچے والے کو دیکھا تو دل میں شکر کی کیفیت پیدا ہوئی۔