حنین کی فتح کے بعد مقام جعرانہ میں پہنچ کر مال غنیمت کی تقسیم کا انتظام کیاگیاتھا۔ ابھی اموال غنیمت تقسیم ہو رہے تھے کہ دفعۃً ہوازن کے چودہ سرداروں کا ایک وفد زہیر بن مرد کی قیادت میں آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوا جن میں آنحضرتؐ کے چچا ابویرقان بھی تھے۔ انہوں نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ ہم مسلمان ہو چکے ہیں اور یہ درخواست ہے کہ ہمارے اہل و عیال اور اموال ہمیں واپس دے دئیے جائیں،
اس درخواست میں عرض کیاگیا یا رسول اللہؐ ہم بہ سلسلہ رضاعت آپؐ کے خویش و عزیز ہیں، اور جو مصیبت ہم پر پڑی ہے وہ آپؐ سے مخفی نہیں، آپؐ ہم پر احسان فرمائیں، رئیس وفد ایک شاعر آدمی تھا، اس نے کہا کہ یا رسول اللہؐ اگر ہم بادشاہ روم یا شاہ عراق سے اپنی ایسی مصیبت کے پیش نظر کوئی درخواست کرتے تو ہمارا خیال یہ ہے کہ وہ بھی ہماری درخواست کو رد نہ کرتے اور آپؐ کو تو اللہ تعالیٰ نے اخلاق فاضلہ میں سب سے زیادہ ممتاز فرمایا ہے، آپؐ سے ہم بڑی امید لے کر آئے ہیں۔رحمت اللعالمینؐ کے لیے یہ موقع دوہری مشکل کا تھا، ایک طرف ان لوگوں پر رحم و کرم کا تقاضا یہ کہ ان کے سب قیدی اور اموال ان کو واپس کر دئیے جائیں، دوسری طرف یہ کہ اموال غنیمت میں تمام مجاہدین کاحق ہوتاہے، ان سب کو ان کے حق سے محروم کر دینا ازروئے انصاف درست نہیں، اس لیے صحیح بخاری کی روایت کے مطابق آنحضرتؐ نے ان کے جواب میں فرمایا:میرے ساتھ کس قدر مسلمانوں کالشکر ہے، جو ان اموال کے حق دار ہیں، میں سچی اور صاف بات کو پسند کرتا ہوں، اس لیے آپ لوگوں کو اختیار دیتا ہوں کہ یا تو اپنے قیدی واپس لے لو، یا اموال غنیمت ان دونوں میں جس کو تم انتخاب کرو وہ تمہیں دے دیے جائیں گے، سب نے قیدیوں کی واپسی کو اختیار کیاتو رسول اللہؐ نے تمام صحابہ کو جمع فرما کر ایک خطبہ دیا جس میں حمد و ثناء کے بعد فرمایا کہ:یہ تمہارے بھائی تائب ہو کر آ گئے ہیں،
میں یہ چاہتاہوں کہ ان کے قیدی ان کو واپس دے دیے جائیں۔ تم میں سے جولوگ خوش دلی کے ساتھ اپنا حصہ واپس دینے کے لیے تیار ہوں وہ احسان کریں جو اس کے لیے تیار نہ ہو تو ہم ان کو آئندہ اموال فئی میں سے اس کا بدلہ دے دیں گے۔‘‘حقوق کے معاملہ میں رائے عامہ معلوم کرنے کے لیے عوامی جلسوں کی آوازیں کافی نہیں، ہر ایک سے علیحدہ رائے معلوم کرنا چاہیے۔مختلف اطراف سے یہ آواز اٹھی کہ ہم خوش دلی کے ساتھ سب قیدی واپس کرنے کے لیے تیار ہیں،
مگر عدل و انصاف اور حقوق کے معاملہ میں احتیاط کے پیش نظر رسول اللہؐ نے اس طرح کی مختلف آوازوں کو کافی نہ سمجھا اور فرمایا کہ میں نہیں جانتا کہ کون لوگ اپنا حق چھوڑنے کے لیے خوش دلی سے تیارہوئے اور کون ایسے ہیں جو شرما شرمی خاموش رہے، معاملہ لوگوں کے حقوق کا ہے، اس لیے ایسا کیاجائے کہ ہرجماعت اور خاندان کے سردار اپنی اپنی جماعت کے لوگوں سے الگ الگ صحیح معلوم کرکے مجھے بتائیں۔
اس کے مطابق سرداروں نے ہر ایک سے علیحدہ علیحدہ اجازت حاصل کرنے کے بعد رسول اللہؐ کو بتلایا کہ سب لوگ خوش دلی سے اپنا حق چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔ تب رسول اللہؐ نے یہ سب قیدی ان کو واپس کر دئیے۔اس سے ثابت ہوا کہ حقوق کے معاملہ میں جب تک خوش دلی کا اطمینان نہ ہو جائے کسی کا حق لینا جائز نہیں، مجمع کے رعب یا لوگوں کی شرم سے کسی کا خاموش رہنا رضا مندی کے لیے کافی نہیں۔