جس طرح مال کی زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہے اسی طرح جسم کی زکوٰۃ دینا بھی ضروری ہے اور جسم کی زکوٰۃ یہ ہے کہ دوسروں کی خدمت کرے اور ان کے غم کو اپنا غم بنالے۔ یہ فرمان جناب صدیق اکبرؓ کا ہے جنہوں نے اپنے دور خلافت میں غریبوں، ناداروں اور بیواؤں کی خدمت کرنے کے لیے آدمیوں کو مقرر کیاہواتھا۔ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے وہ فہرست دیکھی تو ایک بڑھیا کے نام کے سامنے اس کی خدمت کرنے کے لیے کسی کا نام نہیں لکھا ہواتھا۔
حضرت عمرؓ سمجھے کہ شاید یہ کام کسی نے اپنے ذمہ نہیں لیا۔انہوں نے دل میں سوچا کہ اس بڑھیا کی خدمت میں خود کر دیا کروں گا۔ چنانچہ اگلے دن فجر کی نماز پڑھ کر اس بڑھیا کے گھر گئے تو دیکھا کہ جھاڑو بھی دیا ہواہے اور پانی بھی بھرا ہواہے۔پوچھا، اماں! یہ خدمت کون کر گیا ہے؟ کہنے لگی کہ کوئی آتا ہے اور وہ پانی بھی بھر جاتا ہے اورجھاڑو بھی دے جاتاہے، مجھے آج تک اس کے نام کا پتہ نہیں ہے، نہ میں نے پوچھا اور نہ کبھی اس نے بتایا ہے۔انہوں نے سوچا کہ اچھا میں اگلی دفعہ فجر سے پہلے جاؤں گا، جب فجر سے پہلے گئے تو دیکھا کہ سب کام ہوا پڑا ہے، پھر انہوں نے سوچا کہ میں اب تہجد پڑھتے ہی آ جاؤں گا۔ چنانچہ تہجد کے وقت آئے تو دیکھا کہ جھاڑو بھی دیا ہواہے اور پانی بھی بھرا ہوا ہے۔ وہ بھی آخر عمر ابن الخطابؓ تھے، کہنے لگے کہ اچھا میں کل دیکھوں گا۔ چنانچہ انہوں نے اگلے دن عشاء کی نماز پڑھی اور راستے میں ایک جگہ چھپ کر بیٹھ گئے تاکہ دیکھ سکیں کہ بڑھیا کے گھر میں کون جاتا ہے۔جب آدھی رات کا وقت ہوا اور اندھیرا گہرا ہوگیا تو دیکھا کہ ایک آدمی جس کے پاؤں میں جوتے بھی نہیں تھے، ننگے پاؤں آہستہ آہستہ چلتا ہوا اس بڑھیا کے گھر جا رہاہے۔حضرت عمرؓ اس کو دیکھ کر کھڑے ہو گئے اور پوچھنے لگے تو کون ہے؟ جواب ملا، میں ابوبکر ہوں۔حضرت عمرؓ حیران ہو کر پوچھنے لگے، اے امیر المومنین!
کیا آپ رات کی تاریکی اور تنہائی میں اس بڑھیا کی خدمت کرنے جا رہے ہیں اور آپ کے پاؤں میں تو جوتے بھی نہیں، اس طرح ننگے پاؤں کیوں چل رہے ہیں؟حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا، عمر! میں نے اس لیے جوتے نہیں پہنے کہ ایسا نہ ہو کہ میرے جوتوں کی آواز سے کسی سونے والے کی نیند میں خلل آ جائے اور کسی کو میرے اس عمل کا پتہ چل جائے۔یہ بھی لوگ تھے جن کی زندگیاں دوسروں کے لیے وقف تھیں، آج ہم ہیں کہ ہمیں خدمت حلق سے فرصت ملے تو خدمت خلق کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں خدمت خلق کی توفیق دیں۔ آمین۔