اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمانؑ کو وحی کی کہ سمندر کے کنارے پر جاؤ ایک عجیب چیز دیکھو گے۔ حضرت سلیمانؑ اپنے ہمراہی جن و انس کے ساتھ ساحل پر تشریف لے گئے آپ کے وزیر آصف ابن برخیا نے سمندر میں غوطہ لگا کر ایک قبہ سفید کافوری حاضر کیا جس کے چار دروازے تھے ایک موتی کا۔ ایک یاقوت کا اور ایک ہیرے کا اور ایک زمرد سبز کا۔
اور سب دروازے کھلے ہوئے تھے اور ان میں ایک قطرہ بھی پانی کا نہیں داخل ہوا۔ حالانکہ وہ قبہ سمندر کی تہہ میں تھا۔ دیکھتے ہیں کہ اس کے اندر ایک شخص خوب صورت جوان صاف کپڑے پہنے ہوئے نمازپڑھ رہے ہیں، آپ نے قبہ میں داخل ہو کر اس کو سلام کیااور فرمایا کہ تجھے اس دریا میں کس چیز نے پہنچایا۔ اس نے جواب دیا کہ اے نبی اللہ! میرے باپ اپاہج تھے اور ماں نابینا تھی۔ میں نے ان کی ستر برس خدمت کی۔جب میری والدہ وفات پانے لگیں تو انہوں نے کہا اے اللہ! میرے بیٹے کی عمر دراز کر اور تیری عبادت میں گزارنے کی توفیق دے۔ جب باپ کی وفات کی نوبت آئی تو انہوں نے کہا، اے خدا! میرے بیٹے سے ایسی جگہ خدمت لے جہاں شیطان کا دخل نہ ہو۔ چنانچہ جب میں انہیں دفنا کر اس ساحل کی طرف آیا تو یہ قبہ نظر آیا میں اس کی خوبصورتی کے ملاحظہ کے لیے اندر داخل ہوا۔ اتنے میں ایک فرشتے نے آ کر مجھے قعر دریا میں اتار دیا۔ حضرت سلیمانؑ نے پوچھا تو کس زمانہ میں یہاں آیا تھا؟ اس نے کہا کہ حضرت ابراہیمؑ کے زمانہ میں۔ حضرت نے تاریخ دیکھی تو معلوم ہوا انہیں دو ہزار سال گزرے تھے۔ اور وہ شخص بالکل جوان تھا، ایک بال بھی سفید نہ ہواتھا۔ آپ نے پھر دریافت کیا کہ تم سمندر کیاندر کیا کھاتے پیتے ہو؟ اس نے کہا اے نبی اللہ! میرے پاس ایک سبز پرندہ اپنی چونچ میں ایک زرد چیز جو آدمی کے سر کے برابر ہے لے آتا ہے میں اسے کھاتا ہوں،
اس میں دنیا کی ساری نعمتوں کا مزہ آتا ہے۔ اس سے میری بھوک پیاس جاتی رہتی ہے اورگرمی سردی نیند و سستی اور غنودگی وحشت وغیرہ سب کی سب اس سے دفع ہو جاتی ہے۔ آپ نے لوگوں سے متوجہ ہو کر فرمایا کہ دیکھو ماں باپ کی دعا کیسی مقبول ہے۔ اللہ تم پر رحم کرے۔ حقوق والدین ادا کرو۔