لاہور(این این آئی) چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے کہاہے کہہم افغانستان گئے 40ہزار افراد کی پاکستان میں آباد کاری چاہتے تھے جن میں سے5سے10ہزار جنگجو بھی تھے مگر نئی حکومت نے اس معاملے پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ بدھ کوغیر ملکی میڈیا سے گفتگو میں عمران خان نے کہاکہ جب میری حکومت گئی،
تو سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کی توجہ ٹی ٹی پی سے ہٹ گئی اور انہیں ابھرنے کا موقع مل گیا۔عمران خان نے کہاکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی درست نہیں تھی، ہم امریکی ڈالرز کیلئے دوسروں کی جنگ لڑتے رہے، افغان طالبان اور پاکستانی طالبان میں فرق کرنا چاہیے۔سابق وزیراعظم نے کہاکہ یوکرین تنازع سے دنیا میں بے پناہ مسائل نے جنم لیا ہے، دنیا بھر میں ایندھن کی قیمتیں یوکرین بحران کی وجہ سے بڑھیں، ترقی پذیر ملکوں کو خاص طور پر زیادہ نقصان ہوا، یوکرین جنگ نے ترقی پزیر ملکوں میں بیلنس آف پیمنٹ کے سنگین مسائل کھڑے کر دئیے ہیں، پاکستان جیسے ملکوں کو ایسے تنازعات کا حصہ نہیں بننا چاہیے جن کا ہم سیکوئی تعلق نہیں ہے، ترقی پذیر ملکوں پر کسی ایک طرف جھکا ئوکیلئے دبائو ڈالا جاتا ہے، سرد جنگ کے دوران بھارت کا کسی طرف جھکا نہ ہونا قابل تعریف ہے۔چیئرمین پی ٹی آئی نے کہاکہ چین اور ترکی نے ہمیشہ ہمارا ساتھ دیا ہے، مسئلہ کشمیر پر چین اور ترکی کے سوا کوئی ملک ہمارے ساتھ نہیں کھڑا ہوا، ہم یوکرین جنگ کا حصہ کیوں بنیں جب ہمارے معاملات میں مغربی ممالک ہمارے ساتھ نہیں ہوتے، میں نے چین جیسی طویل مدتی پلاننگ کسی اور ملک میں نہیں دیکھی۔عمران خان نے کہاکہ مسئلہ کشمیر، یوکرین جنگ سے الگ معاملہ ہے، ہم کشمیریوں کے حق میں کام کرتے رہیں گے، سفارتی دبائو برقرار رکھیں گے، میں مسائل کے عسکری حل کا حامی نہیں ہوں،
بھارت مقبوضہ کشمیر میں ہندوں کی آبادی بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے، میرا کامل یقین ہے کہ کشمیریوں کو ایک دن ان کا حق مل کر رہے گا۔ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سیگفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہاکہ جب سے پاکستان کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں، بھارت کے ساتھ کوئی جنگ نہیں ہوئی، ایٹمی جنگ دنیا پر خودکش حملے کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہاکہ ایغور جیسے مسائل پر چین کی ہمارے ساتھ بند دروازے میں بات چیت ہوتی ہے، میرے لئے سب سے اہم بات ہے کہ مسلم ملکوں کو عزت اور وقار کے ساتھ رہنا چاہیے، جب کوئی ملک مسلسل بیرونی قرضے لیتا ہے تو وہ دوسروں کی بات ماننے پر مجبور ہوتا ہے، مسلسل قرضہ لینے والا ملک خود مختار نہیں رہتا، میں نے اپنے دور حکومت میں ترکیہ کیساتھ تجارتی تعلقات مستحکم بنانیکی پالیسی اپنائی۔
اسلاموفوبیا کے حوالے سے عمران خان نے کہاکہ اس کا آغاز انقلابِ ایران کے بعد سے شروع ہوا، مغرب میں خوف پھیلا اورتب سے مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی کوشش شروع ہو گئی، اسلامی دہشت گردی یا اسلامی انتہا پسند کوئی چیز نہیں ہے، نائن الیون کے بعد ان الفاظ کو جوڑا گیا تاکہ مسلمانوں کو ہدف بنایا جاسکے، اسلامی تعاون تنظیم کو چاہیے کہ وہ اسلاموفوبیا کیخلاف کردار ادا کرے۔بنگلادیش سے تعلقات پر عمران خان نے کہاکہ
سقوط ڈھاکہ کے بعد کے حالات کی وجہ سے دونوں ملکوں میں دوریاں بڑھیں،میں نے اپنی حکومت میں بنگلادیش سے اچھے تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی، پاکستان اور بنگلا دیش کے درمیان تعلقات مزید بہتر ہونیکی ضرورت ہے۔سابق وزیراعظم نے کہاکہ قانون کی عمل داری کے نہ ہونے کی سب سے بڑی علامت ادارہ جاتی اورامیروں کی کرپشن ہے، جب طاقت ور حلقے قانون سے بالاتر ہو جائیں تو ملک بنانا ری پبلک بن جاتا ہے، میں دوبارہ اقتدار میں آیا تو سب سے پہلے قانون کی عمل درای کو یقینی بنائوں گا،
جہاں قانون کی عمل داری ہو وہاں غربت ختم ہوتی ہے، نائیجیریا کی مثال لے لیں، تیل سے مالا مال ہے لیکن قانون کی عمل داری نہیں، جس کی وجہ سے نائیجیریا دنیا کے غریب ترین ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔چیئرمین پی ٹی آئی نے کہاکہ ٹرمپ دور میں عافیہ صدیقی کی رہائی پر بات چیت آگے بڑھی تھی، ٹرمپ انتظامیہ کے جاتے ہی عافیہ صدیقی کی رہائی پرمذاکرات آگے نہیں بڑھ سکے، ہم بھول جاتے ہیں کہ مغرب میں خواتین کو حقوق ملنے سے کہیں پہلے اسلام نے خواتین کو حقوق دئیے، پردے کے معاملے پر عالمی اجتہاد کی کمی ہے، اسلام میں پردے کا مقصد خانداتی نظام کو بچانا تھا،خواتین کو دبانے کیلئے نہیں تھا، اسلام میں مردوں کو عورتوں پر برتری حاصل نہیں ہے۔