اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کیخلاف توہین عدالت کیس میں تہلکہ خیزحکم جاری کردیا

31  اگست‬‮  2022

اسلام آباد (این این آئی) اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس میں سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کوسات روز میں دوبارہ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہاہے کہ عمران خان کی جانب سے جمع کرائے گئے تحریری جواب سے ذاتی طور پر دکھ ہوا، عدالت توقع کرتی تھی آپ ادھر آنے سے پہلے عدلیہ کا اعتماد بڑھائیں گے،عمران خان کے پائے کے

لیڈر کو ہر لفظ سوچ سمجھ کر ادا کرنا چاہیے، ایک سیاسی لیڈر کے فالورز ہوتے ہیں، اسے کچھ کہتے ہوئے سوچنا چاہیے،، عمران خان نے عوامی جلسے میں کہا عدالت رات 12 بجے کیوں کھلی؟ عدالت کو کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہ کیوں کھلی؟ عدالت اوپن ہونا کلیئر میسج تھا کہ 12 اکتوبر 1999ء دوبارہ نہیں ہو گا۔چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔ عمران خان اپنے وکلا کے ساتھ پیش ہوئے۔اٹارنی جنرل، ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دگل، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون، عمران خان کے وکیل حامد خان بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئے۔عدالت میں کارروائی شروع ہوئی تو عمران خان کے وکیل حامد خان روسٹرم پر آئے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ان سے کہا کہ آپ عمران خان کے وکیل کے ساتھ اس کورٹ کے معاون بھی ہیں، آپ نے جو تحریری جواب جمع کرایا اس کی توقع نہیں تھی۔

یہ عدالت توقع کرتی تھی کہ آپ ادھر آنے سے پہلے عدلیہ کا اعتماد بڑھائیں گے، ایک سیاسی جماعت قانون اور آئین کی حکمرانی پر یقین رکھے گی، 70 سال میں عام آدمی کی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں رسائی نہیں، عمران خان کی جانب سے جمع کرائے گئے تحریری جواب سے مجھے ذاتی طور پر دکھ ہوا، ماتحت عدلیہ جن حالات میں رہ رہی ہے، اس کورٹ کی کاوشوں سے جوڈیشل کمپلیکس بن رہا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان نے ہماری بات سنی اور جوڈیشل کمپلیکس تعمیر ہو رہا ہے، اگر وہ اس عدلیہ کے پاس جا کر اظہار کر لیں کہ انہیں ماتحت عدلیہ پر اعتماد ہے، جس طرح گزرا ہوا وقت واپس نہیں آتا اسی طرح زبان سے نکلی بات واپس نہیں جاتی، عمران خان کے پائے کے لیڈر کو ہر لفظ سوچ سمجھ کر ادا کرنا چاہیے، ان کی کافی فالوونگ ہے۔

میں توقع کر رہا تھا کہ احساس ہو گا کہ غلطی ہو گئی، ایک سیاسی لیڈر کے فالورز ہوتے ہیں، اسے کچھ کہتے ہوئے سوچنا چاہیے۔چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ گزشتہ 3 سال میں بغیر کسی خوف کے ہم نے ٹارچر کا ایشو اٹھایا، ٹارچر کی تو 70 سال میں ریاست نے خود حوصلہ افزائی کی، ٹارچر کی کسی بھی سطح پر اجازت نہیں دی جا سکتی۔

کیا کسی شخص کو لاپتہ کرنے سے بڑا کوئی ٹارچر ہوتا ہے؟ آپ کے جواب سے یہ اندازہ ہوا کہ عمران خان کو احساس نہیں ہے کہ کیا ہوا، اسد طور اور ابصار عالم کے کیسز آپ دیکھ لیں، 3 سال یہ عدالت وفاقی کابینہ کو معاملات بھیجتی رہی، کاش اس وقت بھی آواز اٹھاتے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے جوڈیشل مجسٹریٹ کو معاملہ واپس بھجوایا تھا۔

اس موقع پر عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل جہانگیرجدون کو بولنے سے روک دیا۔چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے عمران خان کے وکیل حامدخان سے مخاطب ہو کر کہا کہ یہ معاملہ مبینہ توہینِ عدالت کرنے والے اور عدالت کے درمیان ہے، آپ اپنے آپ کو صرف عمران خان کا وکیل نہ سمجھیں، آپ اس کورٹ کے معاون بھی ہیں۔انہوں نے استفسار کیا کہ اڈیالہ جیل کس کے ایڈمنسٹریٹو کنٹرول میں ہے؟

کیا ٹارچر کی ذرا سی بھی شکایت ہو تو جیل حکام ملزم کو بغیر میڈیکل داخل کرتے ہیں؟ یہ پٹیشن اسلام آباد ہائی کورٹ سے کب نمٹائی گئی اور تقریر کب کی گئی؟وکیل نے جواب دیا کہ پٹیشن 22 اگست کو نمٹائی گئی اور تقریر 20 اگست کو کی گئی۔چیف جسٹس نے کہا کہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرِ التواء تھا تو تقریر کی گئی، آپ نے توہینِ عدالت کے معاملے پر فردوس عاشق اعوان والی ججمنٹ پڑھی ہو گی؟

پیکا آرڈیننس کے تحت اداروں پر تنقید کرنے والوں کو 6 ماہ ضمانت بھی نہیں ملنی تھی، اس عدالت نے پیکا آرڈیننس کو کالعدم قرار دیا تو عدالت کے خلاف مہم چلائی گئی، عدالت نے تنقید کی کبھی پرواہ نہیں کی، عمران خان نے کہا کہ عدالتیں 12 بجے کیوں کھلیں؟ یہ عدالت کسی بھی کمزور یا آئینی معاملے کے لیے 24 گھنٹے کھلی ہے، توہین عدالت کا معاملہ انتہائی سنگین ہے۔

جب زیر التواء عاملہ ہو اور انصاف کی فراہمی کا معاملہ ہو تو یہ بہت اہم ہے، عمران خان نے عوامی جلسے میں کہا کہ عدالت رات 12 بجے کیوں کھلی؟ عدالت کو کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہ کیوں کھلی۔چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ عدالت اوپن ہونا کلیئر میسج تھا کہ 12 اکتوبر 1999ء دوبارہ نہیں ہو گا، ہر جج آئین کے ہر لفظ سے اچھی طرح آگاہ ہے۔

عدالت نے صرف آئین اور سول بالادستی کو بالادست کرنا ہے، کوئی لیڈر سول سپریمیسی کی بالادستی کی بات نہیں کر رہا، اس عدالت کی مشکل یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے پہلے فیصلے دیے ہوئے ہیں، سپریم کورٹ نیدانیال عزیز، نہال ہاشمی اور طلال چوہدری کے کیس میں فیصلے دیے ہوئے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی لیڈر سوشل میڈیا کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔

میری اور سپریم کورٹ کے فاضل جج کی تصویر سیاسی جماعت کا سربراہ بنا کر وائرل کر دی گئی، میرے نام پر بیرونِ ملک فلیٹ کی غلط معلومات فراہم کی گئیں، ہمارے ادارے نے بھی بہت غلطیاں کیں، آپ کا جمع کرایا گیا جواب عمران خان کے قد کاٹھ کے لیڈر کے مطابق نہیں۔وکیل حامد خان نے چیف جسٹس سے استدعا کی کہ کیا میں کچھ کہہ سکتا ہوں؟

چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے جواب دیا کہ جی ضرور، آپ بتائیں، سیاسی جماعتیں اپنے فالوورز کو منع نہیں کرتیں، اس کورٹ نے کبھی بھی پرواہ نہیں کی کہ کون کیا کہتا ہے، سیاسی لیڈر شپ نے سوشل میڈیا کو خراب کیا ہے، کوئی سیاسی لیڈر کہہ دے کہ سوشل میڈیا پر ایسا نہیں کرنا تو یہ سلسلے رک جائے گا۔وکیل حامد خان نے کہا کہ مجھے احساس ہے کہ عدالت کو اس جواب پر رنج ہو سکتا ہے۔

جواب میں عمومی قانونی نکات اٹھائے گئے ہیں، میں فی الوقت ان نکات کو نہیں اٹھا رہا۔چیف جسٹس نے کہا کہ حامد خان یہ کھلی عدالت ہے، یہاں ہر عمل شفاف ہوتا ہے، ہم توہینِ عدالت کی کارروائی کو غلط طور پر استعمال نہیں ہونے دیں گے، اس میں آزادی اظہارِ رائے کا بھی معاملہ ہے۔وکیل حامد خان نے کہا کہ میں عدالت کی توجہ جواب کے صفحہ نمبر 10 پر دلانا چاہوں گا۔

میں نے درخواست کے قابلِ سماعت نہ ہونے کا نکتہ بھی اٹھایا ہے، عمران خان کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ وہ جوڈیشل افسر کے بارے میں یہ کہیں۔چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ جب تقریر کی گئی تو معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرِ التواء تھا، آپ ریکارڈ دیکھ کر پراپر جواب جمع کرائیں یا عدالت اس معاملے کو آگے بڑھائے گی، عدالت توہینِ عدالت کی کارروائی کو انتہائی شفاف بنائے گی۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ عدالت سے گزارش ہے کہ عمران خان کی ان ریمارکس سے کوئی بدنیتی نہیں تھی، شہباز گِل پر تشدد دیکھ کر میرے موکل جذباتی ہو گئے تھے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ایک لیڈر کو عدالتی آرڈر کے بجائے کسی اور چیز کو دیکھنا چاہیے تھا؟ حالانکہ تشدد کے حوالے سے معاملہ عدالت کے زیرِ سماعت تھا۔

یہ معاملہ ماتحت عدلیہ کی آزادی اور اس پر عوام کے اعتماد کا ہے، آپ کو جو بھی لکھ کر دینا ہے سوچ سمجھ کر لکھیں، آپ اس معاملے کی سنگینی کا بھی اندازہ لگائیں۔چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ عدالت ساری کارروائی کو شفاف انداز میں آگے بڑھائے گی، یہ کوئی پہلی بار نہیں، حامد خان صاحب! دانیال عزیز، نہال ہاشمی اور طلال چوہدری کیس پڑھیں۔

یہ عدالت سپریم کورٹ کے فیصلوں کے خلاف نہیں جا سکتی، آپ معاملے کی سنگینی کو سمجھیں اور سوچ سمجھ کر جواب دیں، آپ بتائیں کہ کیا اس کیس میں کسی کو عدالتی معاون بھی مقرر کریں؟ اس ملک میں تبدیلی تب آئے گی جب تمام ادارے اپنا کام آئین کے مطابق کریں گے۔حامد خان نے کہا کہ عمران خان کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ جوڈیشل افسر کے بارے میں یہ کہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ اس عدالت کا کنسرن صرف عدلیہ کی آزادی ہے۔عدالت نے عمران خان کے وکیل کو سپریم کورٹ کے 3 فیصلے پڑھنے کی ہدایت کی۔اس موقع پر وکیل حامد خان نے تجویز پیش کی کہ عدالت منیر اے ملک کو عدالتی معاون مقرر کرے۔چیف جسٹس نے کہا کہ قوم اس قدر تقسیم ہے، آپ ایسی ساکھ والے کا نام بتائیں جس پر سب متفق ہوں۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ منیر اے ملک پر کسی کو کوئی اعتراض ہو گا۔عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ بھی بتائیں کہ ہم کسے عدالتی معاون مقرر کریں؟اٹارنی جنرل نے بطور عدالتی معاون مخدوم علی خان کا نام تجویز کر دیا۔چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ہدایت کی کہ 7 دن میں سوچ سمجھ کر جواب داخل کریں۔

پاکستان بار کونسل کو بھی عدالتی معاون مقرر کر رہے ہیں، آپ کو معلوم ہے کہ مطیع اللّٰہ جان یہاں کھڑے ہیں اوران کے ساتھ کیا ہوا تھا؟چیف جسٹس نے وفاق کے نمائندے کو ہدایت کی کہ آپ بھی بغاوت اور غداری کے کیسز پر نظرِثانی کریں۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ یہ کارروائی آج ختم ہو سکتی تھی لیکن اس جواب کے بعد مگر اس جواب کے باعث ایسا نہیں ہوا۔

ہمیں کارروائی آگے بڑھانا پڑے گی، چیف جسٹس نے آپ کو جواب داخل کرنے کا ایک اور موقع فراہم کیا ہے، قانون کیا ہے اور عدالت کا اختیار کیا ہے ہمیں علم ہے، آپ اس پر سوچیں۔چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ آپ ہمیں الزام دیتے ہیں کہ پاکستان کی عدلیہ 130 ویں نمبر پر ہے، ہم نے ایک کیس میں فواد چوہدری کو بتایا کہ وہ نمبر عدلیہ کا نہیں۔

ایگزیکٹیو کا تھا، پولیس آرڈر کو نافذ کرنے کا حکم دیا اور وفاقی حکومت نے اس میں مزاحمت کی۔اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ عمران خان کے جواب کی پیشگی نقول عدالتی معاونین کو فراہم کرنے کا کہا جائے۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کو 7 دن میں دوبارہ تحریری جواب جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے توہین عدالت کیس کی سماعت 8 ستمبر تک ملتوی کر دی۔

موضوعات:



کالم



بھکاریوں کو کیسے بحال کیا جائے؟


’’آپ جاوید چودھری ہیں‘‘ اس نے بڑے جوش سے پوچھا‘…

تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟

نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…