عدالت میں بڑی پیشی ،منی لانڈرنگ کیس میں شریف فیملی کی مشکلات میں اضافہ

11  جون‬‮  2022

لاہور( آن لائن ) لاہور کی اسپیشل سنٹرل کورٹ نے منی لانڈرنگ کیس میں وزیر اعظم شہباز شریف، وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز اور دیگر ملزمان کی ضمانت پر فیصلہ محفوظ کرلیا ۔وزیر اعظم شہباز شریف نے عدالت میں پیشی کے موقع پر کہاہے کہ میرا کسی شوگر ملز سے کوئی تعلق نہیں ہے۔میں تنخواہ نہیں لیتا، سی ای او نہیں ہوں، شئیر ہولڈر نہیں ہوں۔

نیب میرے خلاف سپریم کورٹ گیا، عدالت نے کرپشن کے ثبوت مانگے تو دم دبا کر بھاگ گیا۔اسپیشل سنٹرل کورٹ لاہور میں وزیراعظم شہباز شریف،وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز منی لانڈرنگ کیس کی سماعت میں پیش ہوئے تو وفاقی تحقیقاتی ادارے کے پراسیکیوٹر فاروق باجوہ نے منی لانڈرنگ کیس میں مفرور 3 ملزمان کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ تینوں ملزمان دیے گئے پتے پر موجود نہیں ہیں جس پر عدالت نے ایف آئی اے سے استفسار کیا کہ شریک ملزم ملک مقصود کی خبرمیڈیا پر چل رہی ہے وہ فوت ہو گیا ہے۔ ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ابھی تک ملک مقصود کی وفات کی آفیشل طور پر تصدیق نہیں ہوئی۔ ہم نے تصدیق کے لیے انٹر پول کو لکھا ہے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق ملک مقصود کی وفات ہو چکی ہے۔عدالت نے استفسار کیا کہ ہم پھرملک مقصود کواشتہاری کیسے قرار دیں گے؟ عدالت نے طاہر نقوی اور سلمان شہباز کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع کرنے کا حکم دیدیا۔

دوران سماعت وزیراعظم نے روسٹرم پر آکر بیان دیتے ہوئے کہا کہ مجھ پر سنگین الزامات لگائے گئے ہیں۔میں نے درجنوں پیشیاں بھگتی ہیں،میں عدالت کو کچھ بتانا چاہتا ہوں،ایف آئی اے نے میری گرفتاری کا کوئی راستہ نکالنے کے لیے چالان میں تاخیر کی۔دوران سماعت جج نے وزیراعظم سے سوال کیا کہ شوگر ملز میں آپ کا کوئی شیئر نہیں ہے؟

جس پر شہباز شریف نے کہا کہ شوگر مل کا ڈائریکٹر ہوں نہ مالک اور نہ ہی شیئر ہولڈر۔ میں نے منی لانڈرنگ کرنی ہوتی ،کرپشن کرنی ہوتی تو میں جوقانونی طور پر فائدہ لے سکتا تھا وہ لے لیتا۔نیب میرے خلاف سپریم کورٹ گیا، عدالت نے کرپشن کے ثبوت مانگے تو دم دبا کر بھاگ گیا۔

شہباز شریف نے عدالت میں کہا کہ میں نے منی لانڈرنگ کر کے منہ کالا کرانا ہوتا تو خاندان کی شوگر ملوں کو نقصان کیوں پہنچاتا۔ میں نے شوگر ملز کو سبسڈی نہیں دی تاکہ قومی خزانے پر بوجھ نہ پڑے۔میں نے یتیموں اور بیواؤں کے خزانے کو اْن ہی پر استعمال کیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ خدا کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ ایف آئی اے نے جتنے بھی حقائق بتائے ہیں جھوٹے ہیں۔ میں نے 2011ـ12 میں بے روزگار غریب بچے بچیوں کو بولان گاڑیاں دیں۔ 2015 میں ہم نے 50 ہزار گاڑیوں کا منصوبہ شروع کیا۔ یہ 99 اعشاریہ 99 فیصد وہی الزمات ہیں جو نیب نے لگائے۔

دوران سماعت شہباز شریف نے عدالت سے کہا کہ آپ سے پہلے جج نے سختی کی کہ چالان مکمل کیوں نہیں کرتے ،اس عدالت میں کیس ٹرانسفر ہونے سے پہلے درجنوں بار پیش ہوا،جب میں اپوزیشن میں تھا تو نیب اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ گیا ہی نہیں۔ پراسیکیوشن نے کہا کہ یہ منی لانڈرنگ اورکرپشن کا کیس نہیں ہے۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ میرے لیے عزت کی اور کیا بات ہو گی کہ میرٹ پر بری ہوا۔ 4ججز نے کہا کہ کرپشن منی لانڈرنگ اور بے نامی اثاثوں کے کوئی شواہد نہیں ملے۔ عدالت میں جب ضمانت کا معاملہ گیا تو 4 ججز نے میرے حق میں فیصلہ دیا۔وزیراعظم نے کہا کہ میرے خلاف جھوٹا اور بے بنیاد کیس بنایا گیا۔

میں نے ایف آئی اے سے کہا کہ میں زبانی جواب نہیں دوں گا ، وکلا کی مشاورت کے بعد جواب دوں گا۔ جب عقوبت خانے میں تھا تودو مرتبہ ایف آئی اے نے تحقیقات کیں۔شہباز شریف نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ سارا جھوٹ کا پلندہ ہے، جس پر منوں مٹی پڑے گی۔ میرے وکیل نے میری ضمانت کے حوالے سے تمام دلائل دے دیے ہیں۔

میرا حق ہے کہ میں اپنی ضمانت کے حوالے سے اپنی صفائی دوں۔ میرے خلاف کرپشن کا کوئی کیس ثابت نہیں ہوا ہے۔وزیراعظم نے بیان میں کہا کہ دو مرتبہ لاہور ہائیکورٹ نے آشیانہ اور رمضان شوگر ملز کیس میں ضمانتیں دیں۔ انہوں نے کہا کہ عزت ہی انسان کا خاصہ ہوتا ہے۔ اللہ نے دوماہ پہلے مجھے وزارت عظمیٰ کی ذمہ داری عطا کی ہے۔

اللہ سے دعا ہے کہ یہ ذمہ داری خوش اسلوبی سے نبھاؤ ں۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اگر میرے خلاف کرپشن ثابت ہوجاتی تو میں یہاں کھڑا نہ ہوتا بلکہ منہ چھپا کر کسی جنگل میں پھر رہا ہوتا۔دوران سماعت ایف آئی اے پراسیکیوٹر فاروق باجوہ نے عدالت کو بتایا کہ ضمانت کے دوران ملزمان کا رویہ مثبت رہا۔

یہ بات درست ہے کہ شہباز شریف کا ڈائریکٹ رمضان شوگر مل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ شہباز شریف نہ ڈائریکٹر ہیں نہ ہی سی ای او ہیں۔ شہباز شریف کے ذاتی اکاؤنٹ میں 4 مشکوک ٹرانزیکشنز ہوئی ہیں۔رمضان شوگر مل میں حمزہ شہباز اس وقت ایم این اے تھے اور سی ای او تھے۔

حمزہ شہباز نے سالانہ آڈٹ رپورٹ میں دستخط کیے ہوئے ہیں۔ایڈووکیٹ امجد پرویز نے سوال کیا کہ کسی قانون کے تحت سی ای ہونا کوئی جرم تو نہیں ہے۔ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ 2 چیک گلزار خان کے جنکی مالیت 25 لاکھ تھی وہ گلزار خان کے اکاؤنٹ میں گئے۔

گلزار خان وفات پا چکا ہے۔ یہ رقم شہباز شریف نے نہیں نکلوائی، مسرور انور نے نکلوائی۔ ایڈووکیٹ امجد پرویز نے کہا کہ یہ چیک اورنگزیب بٹ نے دیے تھے۔بعد ازاں عدالت نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو جانے کی اجازت دے دی۔ عدالت نے وکلا کی جانب سے دلائل مکمل ہونے کے بعد ملزمان کی ضمانتوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

موضوعات:



کالم



کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟


فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…