اسلام آباد(آن لائن)اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کو ہراساں کرنے سے روکنے کے حکم میں 24 جون تک توسیع دیدی ۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ریاستی ادارے اپنے کردار سے اپنی جگہ بناتے ہیں،ٹوئٹس سے اداروں کیا کیا فرق پڑتا ہے؟چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے مریم ملک کی ایف آئی اے
نوٹس کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ سوشل میڈیا پر بہت سارا جھوٹ ہوتا ہے میرے بارے میں لکھا گیا کہ فلیٹ لیا ہے ہو سکتا ہے ان مریم بی بی نے بھی میرے بارے میں یہ کچھ لکھا ہو، میرے بارے میں کتنی تنقید ہورہی ہے تو کیا یہ میری آزادی کو متاثر کر سکتا ہے؟ ادارے اپنے کردار سے اپنا مقام بناتے ہیں ،ایف آئی اے احکام نے مریم ملک کی متنازع ٹویٹس ایف آئی اے کی جانب سے عدالت کے سامنے پیش کی، عدالت نے مریم ملک کو ایف آئی اے کے سامنے پیش ہو کر بیان ریکارڈ کرانے کی ہدایت کی عدالت نے مریم ملک کو حکم دیا کہ اپنے مفروضوں پر نظرثانی کریں اور ایف آئی اے کے پاس آئین پڑھ کر جائیں، مریم ملک اپنی وکیل ایمان مزاری کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئی ،وفاق کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل خواجہ امتیاز اور ایف آئی کی جانب سے ایڈیشنل ڈائریکٹر پیش ہوئے دوران سماعت عدالت نے مریم ملک سے استفسار کیا کہ کیا یہ آپ کی ٹویٹ ہے؟
جس پر مریم نے عدالت کو بتایا کہ مجھے معلوم نہیں ایف آئی اے کو میری کسی ٹویٹ پر اعتراض ہے؟ جس پر عدالت نے کہا کہ آپ کو پتہ ہونا چاہیے جو کچھ پارلیمنٹ میں ہوا وہ آئین کے مطابق ہوا ہے؟آپ کو پتہ ہے آئین کیا ہے ریاست آئین پر چلتی ہے اگر کوئی چیز پارلیمنٹ میں ہو تو آپ کیسے اعتراض کر سکتے ہیں؟
یہاں پر آئین کی تو کسی کو پرواہ نہیں ہے ،اس موقع پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ مریم ملک نے اپنے ٹوئٹ میں پوری قوم کو اداروں کے خلاف کھڑا ہونے کا کہا ہے ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ مریم ملک نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے سوسائٹی میں انتشار پھیلانے کی کوشش کی ہے ۔
جس پرجسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ادارے اصل میں عوام کی وجہ سے ہیں عوام میں کچھ لوگ نا سمجھی سے یہ کر دیتے ہیں ،وہ ناسمجھ ہے جسے آئین کا نہیں پتہ آپ اسے جرم بنا دیں گے اور ایف آئی اے اس کے پیچھے پڑ جائے گاریاست کے اور بہت سے کام ہیں یہ ادارے ان ٹویٹس سے بہت اوپر ہیں کسی کی ٹویٹس یا کہنے پر بغاوت نہیں ہوتی وہ اس ملک کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں آپ کو پاکستان آرمی پر فخر ہونا چاہئے جو اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہی ہے کیا ۔
اس ادارے کو کسی کے کچھ کہنے سے کوئی فرق پڑے گا؟ سوشل میڈیا پر بہت سارا جھوٹ ہوتا ہے میرے بارے میں لکھا گیا کہ فلیٹ لیا ہے ہو سکتا ہے ان مریم بی بی نے بھی میرے بارے میں یہ کچھ لکھا ہو میرے بارے میں کتنی تنقید ہورہی ہے تو کیا یہ میری آزادی کو متاثر کر سکتا ہے؟
اس موقع پر ایف آئی اے احکام نے عدالت کو بتایا کہ یا تو ایک ٹوئٹ ہو اس کے ٹویٹر اکاؤنٹ سے مستقل اس قسم کی ٹویٹس ہورہی ہیں جس پر عدالت نے کہا لوگوں نے مجھ پر کیا کیا الزام لگائے پتہ نہیں فلیٹ بھی دلوا دئیے ہو سکتا ہے ،مریم بی بی نے بھی یہ کہا ہو ریاستی ادارے اپنے عمل اور کردار سے اپنا عزت و وقار بناتے ہیں۔
ٹویٹس سے اداروں کو کیا فرق پڑتا ہے اس موقع پر چیف جسٹس نے ایف ائی اے حکام سے مکالمہ کیا کہ سوشل میڈیا پر جتنا جھوٹ ہے کیا آپ سب کے پیچھے پڑ جائیں گے ،اگر میرے بارے میں کچھ لکھنے سے میں خوفزدہ ہو گیا تو یہ میرے حلف کی خلاف ورزی ہو گی، ایک ناسمجھی کی ٹویٹ ہے، اس پر جرم کیا بنتا ہے۔
اگر سوشل میڈیا سے پبلک آفس ہولڈر خوفزدہ ہو جائے تو یہ ان کے حلف کی بھی خلاف ورزی ہو گی اس طرح تو بے تحاشہ لوگ ٹوئٹ کرتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ ریاستی ادارے اپنے کردار سے اپنی جگہ بناتے ہیں، ایف آئی اے حکام نے عدالت سے کہا کہ ابھی تو ہم نے ایک نوٹس بھیجا ہے ،یہ آ کر اپنا بیان ریکارڈ کرا دیں کیس کی مزید سماعت 24 جون تک ملتوی کر دی گئی۔