اسلام آباد ہائیکورٹ نے9سال نیب کی پیدا کردہ اذیت برداشت کرنے والے افسر کو بری کردیا

13  اپریل‬‮  2022

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب ریفرنس میں گریڈ 21؍ کے سابق سیکریٹری قانون کو بری کرتے ہوئے تبصرہ کیا ہے کہ (بیورو کی جانب سے قائم کیا گیا) یہ مقدمہ کسی جائز وجہ کے بغیر ہی فارماسیوٹیکل کمپنیوں سے پیسہ حاصل کرنے کی مشق لگتی ہے۔ مسلسل 9؍ سال تک نیب کے پیدا کردہ حالات کی اذیت برداشت کرنے

والے سابق چیئرمین ڈرگ پرائسنگ کمیٹی ارشد فاروق فہیم کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے اب بری کر دیا ہے۔ نیب نے اُن کیخلاف 2013ء میں انکوائری شروع کی، 2015ء میں اسے انوسٹی گیشن میں بدل دیا اور 2016ء میں باضابطہ ریفرنس دائر کیا گیا۔روزنامہ جنگ میں انصار عباسی کی شائع خبر کےمطابق اپنے فیصلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ افسر کیخلاف مقدمہ چلانے کیلئے کوئی شواہد موجود نہیں ہیں۔ نیب نے افسر کو گرفتار کرکے 7؍ مہینے تک جیل میں رکھا۔ 2018ء تک وہ معطل رہے۔ جون 2016ء میں ریفرنس دائر کیا گیا لیکن افسر کو 2022ء میں جا کر اسلام آباد ہائی کورٹ نے بری کیا ہے۔ نیب نے ٹرائل چلنے نہیں دیا حتیٰ کہ افسر کیخلاف الزامات کی فہرست تک تیار نہیں کی گئی۔ 2019ء میں، افسر کو وزارت قانون میں پوسٹنگ ملی اور وہ سیکریٹری قانون بن گئے لیکن بعد میں جب میڈیا میں خبر چھپی، کہ نیب کا ملزم کیسے سیکریٹری قانون بن سکتا ہے، تو انہیں او ایس ڈی بنا دیا گیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں افسر کو بری کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی بھی دوا کی رجسٹریشن، لائسنس، قیمت کے تعین، درآمد، برآمد یا اس کی تنسیخ اور اس دوا میں اضافے اور کمی کے معاملات خالصتاً ڈریپ (DRAP) کے دائرۂ اختیار میں ہیں اور اس ادارے کے فیصلے کی توثیق کا کام وفاقی حکومت کا ہے جو چاہے تو ڈریپ کی قیمتوں کے تعین کے حوالے سے میکنزم یا پھر دیگر ریگولیٹری معاملات پر اتفاق کرے یا نہ کرے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ ان کیسز میں فارماسیوٹیکل کمپنیوں نے مبینہ طور پر کچھ فوائد حاصل کیے، پلی بارگین یا وی آر حاصل کیا اور ایک بھاری رقم واپس کی، اسے درخواست گزار (ارشد فہیم) کیخلاف الزام تصور نہیں کیا جا سکتا، وہ اس وقت پانچویں اور چھٹی ڈی پی سی میٹنگ کے دوران چیئرمین ڈی پی سی تھے، حالانکہ ریکارڈ، اعداد و شمار یا دیگر دستاویزات کی بنیاد پر تکنیکی سوالات کو حل کرنے کیلئے وہ تن تنہا شخص نہیں تھے جبکہ نیب نے الزام عائد کیا ہے کہ اُن کمپنیوں نے جعلی ریکارڈ بنایا یا پھر اس میں ہیرا پھیری کی۔

فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ ڈرگز ایکٹ 1976ء اور ڈریپ ایکٹ 2012ء کے دونوں قانون میں اپیلیٹ بورڈ کا تصور پیش کیا گیا ہے، جس میں کسی بھی ایسے فریق یا شخص کی شکایت کا ازالہ کرنے کا طریقہ کار موجود ہے جو ایسے کسی بھی معاملے سے متاثر ہوا ہو جو ڈریپ کی ضابطوں میں شامل ہوتے ہیں، حتیٰ کہ ان قوانین میں خصوصی طور پر جرائم کی بھی نشاندہی کی گئی ہے لیکن اس کیس میں ان قوانین پر عمل نہیں کیا گیا، اور ایسا لگتا ہے کہ یہ پورا کیس فارماسیوٹیکل کمپنیوں سے کسی جواز کے بغیر پیسہ وصول کرنے کی مشق ہے۔

حالانکہ ڈرگز ایکٹ 1976ء میں واضح طور پر درج ہے کہ غلط یا گمراہ کن معلومات کی فراہمی قابل سزا جرم ہے اور ڈرگز کورٹ کو اس پر نوٹس لینا چاہئے تھا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ ڈرگز ایکٹ 1976ء کے سیکشن 38؍ اور ڈریپ ایکٹ 2012ء کے سیکشن 34؍ کے حوالے سے خصوصی قوانین کو دیکھیں تو ان میں فراہم کردہ استثنیٰ کا بھی نیب حکام نے خیال نہیں رکھا، اور اس معاملے پر کسی بھی وجہ کے بغیر ہی فیڈرل گورنمنٹ اور پرائسنگ میکنزم کو کرمنلائز کر دیا گیا ہے۔

مذکورہ بالا وجوہات کی روشنی میں دیکھیں تو عدالت سمجھتی ہے کہ درخواست گزار کیخلاف کسی بھی طرح سے شواہد کی صورت میں ذرہ برابر بھی کچھ موجود نہیں، انہوں نے اپنا فرض ادا کیا ہے، اگرچہ کچھ بے ضابطگیوں کی نشاندہی ہوئی ہے لیکن نیب آرڈیننس 1999ء کے سیکشن 9 اے 4، 6، 9 اور 12؍ کے تحت یہ بے ضابطگیاں فوجداری لحاظ سے مس کنڈکٹ کے زمرے میں نہیں آتیں، خصوصاً اس وقت جب نیب ترمیمی آرڈیننس 2019ء کے تحت دیکھیں تو وضاحت سامنے آ جاتی ہے کہ ایسے ریفرنس پر کارروائی نہیں ہو سکتی، لہٰذا عدالت درخواست گزار کو الزامات سے بری کرتی ہے۔

موضوعات:



کالم



کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟


فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…