جمعہ‬‮ ، 22 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے مگر وہ کہیں نظر نہیں آ رہی، اسلام آباد ہائیکورٹ

datetime 1  دسمبر‬‮  2021
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(آن لائن) چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے لاپتہ صحافی و بلاگر مدثر نارو کے بازیابی کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ ریاست کی طرف سے کسی کا لاپتہ ہو جانا انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے مگر وہ کہیں نظر نہیں آ رہی اگر اس عدالت میں کوئی بھی متاثرہ شخص آتا ہے کہ اس کا کوئی عزیز لاپتہ ہو گیا تو یہ ریاست کی ناکامی ہے۔

بدھ کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی عدالت نے لاپتہ صحافی و بلاگر مدثر نارو کے بازیابی کیس کی سماعت کی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری اور سیکرٹری داخلہ عدالت میں پیش ہوئے دوران سماعت چیف جسٹس نے ڈاکٹر شیریں مزاری کو کہا کہ آپ کو اس عدالت نے اس لیے تکلیف دی کہ آپ میں جو ہمدردی ہے وہ ریاست میں نہیں ہے پٹیشنر کی جانب سے عثمان وڑائچ ایڈووکیٹ پیش ہوئے جبکہ ایمان مزاری بیماری کے باعث پیش نہ ہوئیں وفاق کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود اور ڈپٹی اٹارنی جنرل سید طیب شاہ بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے عدالت نے کہا کہ ملک میں جبری گمشدگیوں کا phenomena ہے ریاست کی طرف سے کسی کا لاپتہ ہو جانا انسانیت کے خلاف جرم ہے وزیراعظم اور کابینہ ارکان لوگوں کی خدمت کے لیے ہیں لاپتہ شخص کی بازیابی کے لیے ریاست کا رد عمل pathetic ہے ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے مگر وہ کہیں نظر نہیں آ رہی اگر اس عدالت میں کوئی بھی متاثرہ شخص آتا ہے کہ اس کا کوئی عزیز لاپتہ ہو گیا تو یہ ریاست کی ناکامی ہے چیف جسٹس نے ڈاکٹر شیری مزاری سے مکالمہ کیا کہ آپ نے پہلے بھی قیدیوں کے ایشو پر بلوایا تھا جس پر وفاقی وزیر نے عدالت کو بتایا کہ

جبری گمشدگیوں کا معاملہ ہمارے منشور میں تھاہم نے اس حوالے سے قانون سازی کی ہے، سینیٹ میں جلد بھجوایا جائے گاپرائم منسٹر بننے سے پہلے بھی عمران خان کا اس ایشو پر واضح موقف رہا ہے جس پر عدالت نے کہا کہ ریاست کی طرف سے کسی کو اغوا کرنا انتہائی سنگین جرم ہے کسی آفس ہولڈر کا کوئی عزیز غائب ہو جائے تو

ریاست کا رد عمل کیا ہو گاپبلک آفس ہولڈر کا کوئی عزیز غائب ہو جائے تو پوری مشینری حرکت میں آ جائے گی ریاست کا ردعمل عام شہری کے غائب ہونے پر بھی یہی ہونا چاہئے عدالت کو بتایا گیا ہے کہ لاپتہ شخص کی اہلیہ بھی چل بسی ہے تمام ایجنسیاں وفاقی حکومت کے کنٹرول میں ہیں یہ سمریوں یا رپورٹس کی بات نہیں مسنگ پرسن

کے بچے اور والدین کو مطمئن کریں ریاست کی ذمہ داری ہے کہ بچے کی دیکھ بھال کرے اور متاثرہ فیملی کو سنے اس پر وفاقی وزیر نے عدالت کو بتایا کہ بیان حلفی ابھی تک نہیں ملا اس کے مطابق اخراجات کی ادائیگی کے لیے پراسیس کریں گے جس پر عدالت نے کہا کہ وزیراعظم کے پاس لے کر جائیں کابینہ ارکان سے ملاقات کرائیں

جس پر وفاقی وزیر انسانی حقوق نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعظم ان کو ضرور سنیں گے پہلے ہم چاہتے ہیں کہ ان کے لیے اخراجات کی ادائیگی کا بھی پراسیس کر لیں لاپتہ شخص کے کمسن بچے اور دادی کی وزیراعظم سے ملاقات کرائی جائے گی اس سے پہلے آئندہ ہفتے تک ان کو compensation کی رقم کی ادائیگی کا پراسیس

مکمل کرنے دیں ہماری حکومت جبری گمشدگی کو سنگین جرم سمجھتی ہے جمہوریت میں کسی کو لاپتہ کرنے کی اجازت کسی صورت نہیں دی جا سکتی جس پر عدالت نے کہا کہ آپ کوشش کریں کہ یہ وزیراعظم سے ملاقات کے بعد مطمئن ہو کر واپس آئیں لاپتہ افراد کی ذمہ داری تو وزیراعظم کو کابینہ ارکان پر آتی ہے ریاست کی بجائے

compensation کی رقم وزیراعظم اور کابینہ ارکان کیوں نا ادا کریں؟تاکہ یہ معاملہ ہی ہمیشہ کے لیے ختم ہو سکے اگر کوئی 2002 میں لاپتہ ہواتو اس وقت کے چیف ایگزیکٹو کو ذمہ دار ٹھہرا کر اسے ازالے کی رقم ادا کرنے کا کیوں نا کہ جائے؟جبری گمشدگیوں میں صرف سٹیٹ نہیں نان سٹیٹ ایکٹرز بھی آتے ہیں کسی نہ کسی کو تو اس کا ذمہ دار ٹھہرانا چاہیے عدالت نے حکومت کو 13 دسمبر تک مدثر نارو کی فیملی کو مطمئن کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…