اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک/این این آئی )پاکستان کے مختلف شہروں میں ’پراسرار وائرس‘پھیلنے کا انکشاف ہوا ہے، اس وائرس کی علامات کیا ہیں؟ اور اس کا علاج کیسے ممکن ہے؟ ۔ نجی ٹی وی اے آروائی کے پروگرام میںماہر صحت ڈاکٹر شوہبا لکشمی نے گفتگو کرتے ہوئے ناظرین کواس وائرس کی علامات اور تفصیلات سے آگاہ کیا۔انہوں نے بتایا کہ پھیلنے والا پراسرار وائرس بظاہر علامات سے
“ڈینگی” جیسا لگتا ہے مگر جب مریض کے ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں تو ان میں “ڈینگی” کی تشخیص نہیں ہو رہی ہے۔ڈاکٹر شوہبا لکشمی کا کہنا تھا کہ وائرل انفیکشن کے علاج کیلئے اینٹی بائیوٹک ادویات کا استعمال کسی بھی طرح کام نہیں کرتیں، اور اگر ہم یہ ادویات لیتے رہے تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ اینٹی بائیوٹک ادویات بیکٹیریل انفیکشن میں بھی مؤثر ثابت نہیں ہوں گی۔انہوں نے بتایا کہ کسی بھی قسم کے وائرل انفیکشن کیلئے باقاعدہ علاج کی ضرورت نہیں اور نہ ہی کوئی دوا لینی چاہیے یہ دوچار دن میں خودبخود ٹھیک ہوجاتا ہے۔دوسری جانب گزشتہ دو ہفتوں سے کراچی میں لوگوں کے پراسرار بخار سے بیمار ہونے کی اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔ اس ڈینگی جیسے بخار کی علامات میں اچانک مختصر مدت کا تیز بخار، کمزوری، سردی لگنا اور متلی شامل ہیں۔ جب ان مریضوں کا ٹیسٹ کیا گیا تو ان کے خون کے نمونوں میں وائٹ بلڈ سیل، ریڈ سیل اور پلیٹیلیٹس کی کمی سامنے آئی تاہم ان کے کرونا ٹیسٹ کی رپورٹ منفی تھی۔ایسے مریضوں میں سے بہت سے لوگوں نے جوڑوں کے درد، قے اور پانی کی کمی کی شکایت کی۔ ان شکایات کے ساتھ کچھ مریض اور کچھ بچے نجی اور سرکاری اسپتالوں میں داخل کرائے گئے ہیں۔جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کی ایمرجنسی کی انچارج ڈاکٹر صائمہ نے بتایا کہ مریضوں میں ڈینگی کی منفی رپورٹس سامنے آرہی ہیں لیکن ان میں علامات ڈینگی جیسی ہیں، جیسا کہ وائٹ بلڈ سیل اور پلیٹی لیٹس کی کمی۔ جے پی ایم سی ایسے مریضوں کو ان وارڈز میں منتقل کررہا ہے جہاں ڈینگی کے مریضوں کو رکھا جاتا ہے۔انہوں نے کہاکہ تیز بخار اور پلیٹی لیٹس کی کمی کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ڈینگی بخار کو بریک بون فیور (ہڈیوں توڑ بخار)کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، یہ مچھر سے پھیلنے والا انفیکشن ہے جو فلو جیسی شدید بیماری کا باعث بن سکتا ہے۔ ڈینگی وائرس کی 4 اقسام ہیں(جسے سیرو ٹائپس بھی کہا جاتا ہے)، جنہیں ڈی ای این وی۔1، ڈی ای این وی۔2، ڈی ای این وی۔3 اور ڈی ای این وی۔4 کا نام دیا گیا ہے۔ پنجاب میں مون سون کا موسم ختم ہونے کے بعد ڈینگی کے 20 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں۔ڈائویونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ سائنسز (ڈی یو ایچ ایس)میں مالیکیولر پیتھالوجی کے سربراہ پروفیسر سعید خان سمجھتے ہیں کہ یہ ایک ساتھ موجود وائرس ہوسکتا ہے جو پہلے رپورٹ کیا گیا۔پروفیسر سعید نے کہا کہ یہ کوئی پراسرار وائرس نہیں ہے، جس طرح میڈیا اس کی رپورٹنگ کررہا ہے، یہ ایک قسم کا بخار ہوسکتا ہے جس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ علامات ڈینگی جیسی ہیں لیکن ٹیسٹ کے نتائج منفی ہیں،
اس کی تصدیق میں وقت لگے گا، ہم اس پر کام کررہے ہیں اور کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔ڈاکٹر سعید نے کہاکہ یہ ڈینگی کی چار اقسام میں سے ایک بھی ہو سکتی ہے تاہم اس بیامری سے اب تک کسی ہلاکت کی اطلاع نہیں ملی ہے۔وبائی امراض کے ماہر اور وائرولوجسٹ ڈاکٹر رانا اصغر جاوید کا اس حوالے سے بتایاکہ اس طرح کے کیسز دوسرے شہروں جیسا کہ اسلام آباد، لاہور اور حیدرآباد سے بھی رپورٹ ہورہے ہیں۔
انہیں بھی لگتا ہے کہ یہ ایک نامعلوم وائرس ہے تاہم اس پر تحقیق جاری ہے۔انہوں نے کہاکہ ایک قابل قبول نظریہ یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ نیا وائرس ملیریا ہو یا ایبو وائرس کی فیملی کا کوئی اور وائرس یا مچھروں سے پیدا ہونیوالا وائرس ہو، یہی وجہ ہے کہ ایسے افراد کو ڈینگی کے مریضوں کی طرح ٹریٹ کیا جارہا ہے۔ ڈینگی کے علاج کیلئے کوئی خاص دوا نہیں ہے، کچھ لوگ پپیتے کے پتوں کے عرق کے قدرتی علاج پر یقین رکھتے ہیں، جس سے بہت سے کیسز میں پلیٹی لیٹس میں زبردست اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔