اسلام آباد ( آن لائن)سپریم کورٹ نے حکومت کو سانحہ اے پی ایس متاثرین کے ساتھ ملکراقدامات اٹھانے کا حکم دیتے ہوئے رپورٹ وزیر اعظم کے دستخط کے ساتھ جمع کروانے کی ہدایت کی ہے ۔عدالت عدالت نے اٹارنی جنرل کی استدعا قبول منظور کرتے ہوئے کیس کی سماعت 4 ہفتوں کے لئے ملتوی کر دی ۔کیس کی سماعت چیف جسٹس جسٹس گلزار احمد
کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔وزیرا عظم عمران خان سانحہ اے پی کیس میں سپریم کورٹ پیش ہوئے اور ججز کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے جواب دیئے ۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے عمران خان کو روسٹرم پر بلا لیا اور کہا کہ سانحہ اے پی ایس میں ریاست نے بچوں کے والدین کو انصاف دلانے کے لئے کیا کیا؟ جس پر وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ جب یہ واقعہ ہوا تو 128 دن کا دھرنا ختم کر کے فوری پشاور پہنچا، میں تو اْس وقت حکومت میں نہیں تھا۔2014 میں جب سانحہ ہوا کے پی ہماری حکومت تھی،سانحہ کی رات ہم نے اپنی پارٹی کا اجلاس بلایا،واقعہ کے دن ہی پشاور گیا تھا،ہسپتال جا کر زخمیوں سے بھی ملا،واقع کے وقت ماں باپ سکتے میں تھے،صوبائی حکومت جو بھی مدوا کرسکتی تھی کیا۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت کو چھوڑیں اب تو آپ اقتدار میں ہیں، مجرموں کو کٹہرے میں لانے کیلئے آپ نے کیا اقدامات کئے ،میڈیا رپورٹس کے مطابق آپ توان لوگوں سے
مذاکرات کررہے ہیں۔اس پر وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ آپ مجھے بات کرنے کا موقع دیں،میں ایک ایک کرکے وضاحت کرتا ہوں،اخلاقی ذمہ داری پر کیسے کسی کے خلاف ایف آئی آر درج کر دیں، کورٹ اس معاملہ پر جو بھی حکم دے عمل کرنے کو تیار ہیں۔ کمیشن بنانا ہے تو بنا دیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں آپ کے پالیسی فیصلوں سے کوئی
سروکار نہیں،ہم یہ پوچھ رہے ہیں اتنے سال گزرنے کے بعد بھی مجرموں کا سراغ کیوں نہ لگایا جا سکا، آپ بتائیں ذمہ داروں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟آئین پاکستان میں عوام کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ رپورٹ کے مطابق کوئی خاص اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔اس پر وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ دہشت
گردی کیخلاف جنگ میں 80 ہزار لوگ شہید ہوئے،میں نے اس وقت کہا تھا یہ امریکاکی جنگ ہے، ہمیں مداخلت نہیں کرنی چاہئے، ہمیں پتہ ہی نہیں تھا کہ دوست کون ہے اور کون دشمن،ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ اس لیے جیتے ہیں کہ قوم پیچھے کھڑی تھی، میں نے کہا تھا ہمیں نیوٹرل رہنا چاہئے۔جب سانحہ ہوا تو کے پی میں ہماری حکومت تھی ،
سانحہ اے پی ایس بہت دردناک تھا، سانحہ کی رات ہم نے اپنی پارٹی کا اجلاس بلایا تھا۔اس دوران جسٹس قاضی امین نے کہا کہ ماضی میں جانے کی ضرورت نہیں،آپ نے کیا کہا تھا اور کیا سوچا تھا اس سے غرض نہیں،یہ بتائیں اب تک کس کوپکڑا گیا؟جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ رپورٹ کے مطابق کوئی بھی خصوصی اقدام نہیں لیے گئے،انٹیلی جنس کا
فقدان نہیں آتا ہے،حکومت نے کوئی اہم اقدام اٹھائے ہیں تو عدالت کو بتایا جائے،آئین پاکستان ہر پاکستانی کے جان و مال کا تحفظ دیتا ہے۔والدین چاہتے ہیں کہ اس وقت کے اعلی حکام کیخلاف کاروائی ہو۔والدین کو تسلی دینا ضروری ہے،کمیشن رپورٹ کے مطابق کوئی خاص اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ جسٹس قاضی امین نے وزیر اعظم کو ایک موقع پر
ٹوکتے ہوئے کہا کہ ماضی میں جانے کی ضرورت نہیں، آپ وزیراعظم ہیں، ہم آپکا احترام کرتے ہیں،یہ بتائیں کہ سانحہ کے بعد اب تک کیا اقدامات اٹھائے، سنا ہے کہ ریاست کسی گروہ سے مذاکرات کررہی ہے،کیا اصل ملزموں تک پہنچنا اور پکڑنا ریاست کا کام نہیں۔اس موقع پر وفاقی وزرا فواد چوہدری ، فرخ حبیب ،شیخ رشید،علی زیدی،معاون خصوصی علی اعوان،سینٹر عون عباس بپی بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔