رجب طیب اردوان نے امریکہ پر دہشت گردوں کی پشت پناہی کا الزام لگا دیا

24  ستمبر‬‮  2021

استنبول (مانیٹرنگ، آن لائن )ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ جو بائیڈن کے وائٹ ہاؤس میں آنے کے بعد سے ان کے امریکی ہم منصب کے ساتھ تعلقات کا ‘اچھا آغاز’ نہیں ہوا۔ استنبول میں نماز جمعہ کے بعد گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے امریکہ پر دہشت گردوں کی پشت پناہی کا الزام لگا دیا، ان کا کہنا تھا کہ امریکہ دہشت گردوں سے لڑنے کی بجائے مدد فراہم کرتا ہے،

طیب اردوان نے کہا کہ نیٹو ممبر ہونے کے ناتے یہ بات ساری دنیا کو بتانا چاہتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ وائی پی جے جیسی دہشت گرد تنظیموں کو امریکہ ہتھیار دیتا ہے، دوسری جانب خبر رساں ایجنسی انادولو کے مطابق نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سائیڈ لائن پر طیب اردوان نے کہا کہ ‘میری خواہش ہے کہ امریکا کے ساتھ تعلقات دوستانہ ہوں نہ کہ دشمنی پر مبنی تعلقات ہوں’۔انہوں نے کہا کہ ‘تاہم جس طرح نیٹو کے دو اتحادیوں کے درمیان معاملات چل رہے ہیں وہ فی الحال زیادہ خوشگوار نہیں ہیں’۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے سابق امریکی صدور جارج ڈبلیو بش، براک اوباما اور ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ‘بہتر کام کیا تاہم میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ جو بائیڈن کے ساتھ تعلقات کا اچھا آغاز ہوا ہے’۔ترک رہنما نے کہا کہ وہ جو بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے واشنگٹن سے ناخوش تھے، خاص طور پر انقرہ کو ایف-35 لڑاکا طیارے کے منصوبے سے ہٹائے جانے کے حوالے سے جب ترکی نے روس کے بنائے گئے ایس-400 فضائی دفاعی نظام کی خریداری کا معاہدہ کیا تھا۔اس معاہدے کی وجہ سے گزشتہ سال امریکی پابندیاں لگیں اور ترکی کو ایف-35 پروگرام سے معطل کردیا گیا۔انقرہ کو کم از کم 100 کے قریب اسٹیلتھ لڑاکا طیارے ملنے تھے اور کئی ترک سپلائرز اس کی تعمیر میں شامل تھے۔رجب طیب اردوان نے کہا کہ ہم نے ایف-35 خریدا، ایک ارب 40 کروڑ ڈالر ادا کیے

اور ایف-35 ہمیں نہیں دیا گیا، ہمارے لیے ایس-400 کا معاملہ مکمل ہو چکا ہے، اس سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں ہے’۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘امریکا کو سمجھنا چاہیے، ہم ترک ایماندار ہیں لیکن بدقسمتی سے امریکا نہ تھا اور نہ ہے’۔ترک صدر نے کہا کہ انقرہ ‘دوسرے دروازے کھٹکھٹائے گا اور ترکی اپنے دفاع کے لیے جو ضرورت ہے اسے خریدے گا’۔افغانستان سے حالیہ امریکی انخلا اور طالبان کے اقتدار میں دوبارہ آنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے

انہوں نے اصرار کیا کہ ‘اگر افغان شہریوں کے بڑے پیمانے پر ہجرت سامنے آئی تو اس کی قیمت امریکا کو ادا کرنی چاہیے’۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ مہاجرین اب کہاں جائیں گے؟ ترکی کے لیے اپنے دروازے کھولنا اور انہیں قبول کرنا ناقابل تصور ہے’۔رجب طیب اردوان نے بارہا نشاندہی کی ہے کہ ترکی پہلے ہی تقریباً 50 لاکھ تارکین وطن اور پناہ گزینوں کا مسکن ہے بشمول شام سے تقریباً 37 لاکھ اور افغانستان سے تقریباً 4 لاکھ 20 ہزار مہاجرین یہاں آئے۔

موضوعات:



کالم



کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟


فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…