کابل (این این آئی، آن لائن)افغانستان کے سابق نائب صدر جنرل عبدالرشید دوستم علاج کی غرض سے ترکی میں ایک طویل وقت گزارنے کے بعد افغانستان واپس پہنچ گئے۔میڈیارپورٹس کے مطابق ان کی پارٹی جنبشِ ملی کے ایک رہنما اور ہائی کونسل برائے مفاہمت کے ڈپٹی سربراہ عنایت اللہ بابر فرہمند نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا کہ دوستم ترکی میں علاج کروانے کے بعد واپس آ گئے ہیں۔
جنرل دوستم واپسی پر اپنے آبائی صوبہ جوزجان گئے جہاں انھوں نے طالبان کے حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے پیپلز فورسز کی قیادت سنبھال لی ہے۔عبدالرشید دوستم 1990 کی دہائی میں طالبان کے خلاف مزاحمت میں اہم رہنما رہ چکے ہیں۔ ان کا طالبان کے خلاف موقف ہمیشہ سخت رہا ہے۔عبدالرشید دوستم افغانستان کی ایک متنازع شخصیت ہیں اور ان پر دسمبر 2001 میں سینکڑوں طالبان قیدیوں کو دم گھونٹ کر یا فائرنگ کے ذریعے ہلاک کرنے کا الزام ہے تاہم وہ اس واقعے میں ملوث ہونے کی تردید کرتے ہیں۔افغان طالبان نے پیش قدمی کرتے ہوئے صوبہ نمروز کے دارالحکومت پر قبضہ کرلیا جو کسی بھی صوبائی دارالحکومت پر ان کا پہلا قبضہ ہے۔بین الاقوامی میڈیا کے مطابق نمروز کی صوبائی پولیس نے کہا کہ طالبان نے صوبائی دارالحکومت زرنجان پر قبضہ کرلیا ہے جو کسی بھی صوبائی حکومت پر ان کا پہلا قبضہ ہے۔ترجمان پولیس نے سیکیورٹی خدشات کے باعث شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ طالبان کے پاس شہر پر قبضے کا موقع تھا کیونکہ حکومت کی جانب سے انتظامات نہیں کیے گئے تھے۔طالبان اسے قبل حالیہ مہینوں میں کئی اضلاع اور سرحدی علاقوں پر قبضہ کرچکے ہیں اور مغرب ہیرات اور جنوب میں قندھار تک صوبائی دارالحکومتو پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔ طالبان نے افغانستان میں اپنے تسلط کو سرحدی علاقوں میں بڑھاتے ہوئے
دو صوبائی دارالحکومتوں کی جانب پیش قدمی تیز کردی ہے اور اس دوران انہوں نے افغان فورسز جبکہ حکومت کی حمایت یافتہ ملیشیا کو بھی نشانہ بنایا۔شمالی صوبے جوزجان میں طالبان کی تازہ کارروائیوں میں 10 افغان فوجی اور عبدالرشید دوستم ملیشیا گروپ سے تعلق رکھنے والا ایک کمانڈر مارا گیا۔جوزجان کے نائب گورنر عبدالقادر مالیہ نے کہا کہ ‘طالبان نے رواں ہفتے (صوبائی دارالحکومت) شبرغان کے مضافات میں پرتشدد حملے شروع
کیے اور شدید جھڑپوں کے دوران حکومت کے حامی ملیشیا فورسز کا ایک کمانڈر جو دوستم کا وفادار تھا ہلاک ہوگیا۔طالبان، جو 2001 سے امریکی زیر قیادت بین الاقوامی افواج کے ہاتھوں اقتدار کے خاتمے کے بعد اپنی حکمرانی کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں، نے امریکی حمایت یافتہ حکومت کو شکست دینے کے لیے اپنی مہم تیز کر دی ہے کیونکہ 20 سال کی جنگ کے بعد غیر ملکی افواج کا انخلا مکمل ہورہا ہے۔