ایک لاکھ عمران خان بھی آجائیں تو سندھ فتح نہیں کر سکتےٗسعید غنی

2  اگست‬‮  2021

کراچی (این این آئی ٗمانیٹرنگ ڈیسک) وزیر تعلیم و محنت سندھ سعید غنی کا کہنا ہے کہ ایک لاکھ عمران خان بھی آ جائیں تو سندھ فتح نہیں کر سکتے۔ آزاد کشمیر میں صاف و شفاف انتخابات ہوتے تو 100 فیصد وہاں کی حکومت پیپلز پارٹی ہی بناتی۔ اب جبری طور پر کشمیریوں پر پی ٹی آئی کو بٹھا دیا گیا ہے اس لئے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کشمیریوں کو پی ٹی آئی کی نحوست سے بچائے کیونکہ انہوں نے پاکستان میں بھی اپنی نالائقی اور نااہلی سے نحوست پھیلائی ہے۔

جب بھی عوام کو آزادی سے ووٹ ڈالنے کا موقع ملتا ہے وہاں وہ پیپلز پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں ۔پاکستان کی انتخابی سیاست کو آزاد چھوڑ دیں تو پاکستان پیپلز پارٹی سے بڑی سیاسی جماعت اس ملک میں اور کوئی نہیں ہے۔پیپلز پارٹی کے خلاف کشمیر کا انتخاب ہو یا عام انتخابات ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ سازش کرتی آئی ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ پی ڈی ایم میں بھی کچھ حکومتی سہولت کار بیٹھے ہوئے ہیں، جو پی ٹی آئی کی حکومت کو مستحکم بنانے اور ان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک کو کمزور کرنے کے لئے کام کررہی ہیں۔ الیکٹرونک مشین سے پولنگ کا مطالبہ اس وقت انتخابات میں دھاندلی کو آسان کرنے کے لئے کیا جارہا ہے، ہمارے الیکشن کمیشن کے قوانین پر عمل درآمد اور انتخابات میں بیرونی مداخلت کو روک کر ہم صاف و شفاف انتخابات کے متحمل ہوسکتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے برطانیہ میں گلوبل ایجوکیشن کانفرنس میں شرکت کے بعد پارٹی کے رہنمائوں اور کارکنوں سے ملاقات اور بعد ازاں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی برطانیہ کے عہدیداران اور کارکنان بھی موجود تھے۔

سعید غنی نے کہا کہ میں لندن گلوبل ایجوکیشن کانفرنس میں شرکت کے لئے آیا تھا اور یہاں وفاقی وزیر تعلیم اور دیگر صوبوں کے وزراء تعلیم بھی ساتھ تھے۔ یہ کانفرنس ایک کامیاب تعلیمی کانفرنس رہی اور اب چونکہ اس کانفرنس کے بعد یہاں موجود تھا تو پارٹی کے رہنمائوں اور یہاں رہنے والے پاکستانیوں اور پیپلز پارٹی کے جیالوں سے بھی مل رہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے بھی

ایک ہفتہ کشمیر کی انتخابی مہم میں گزارا، میں نے ان حلقوں میں آصفہ بھٹو زرداری، فریال ٹالپور اور یوسف رضا گیلانی کے ہمراہ بھی وہاں الیکشن مہم میں ساتھ رہا۔ سعید غنی نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی نظریاتی سپورٹ کشمیر، گلگت بلتستان میں ابھی سے نہیں ہے بلکہ شہید ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے دور سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کشمیر میں صاف و شفاف انتخابات ہوتے تو 100 فیصد وہاں کی حکومت پیپلز پارٹی

ہی بناتی۔ لیکن جو انتخابات ہوئے وہ سب کے سامنے ہے اور پیپلز پارٹی کو مکمل طور پر ہرانے کے لئے بھرپور کوشش کی گئی اس کے باوجود ہم نے 11 نشستیں حاصل کی او رہم پر جبری طور پر پی ٹی آئی کو مسلط کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اب پی ٹی آئی کی نحوست سے کشمیریوں کو بچائے اس لئے کہ جو تباہی انہوںنے پاکستان میں پھیلائی ہے امکان یہی ہے کہ وہ کشمیر میں بھی اپنی

نالائقی اور نااہلی سے تباہی پھیلائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر میں پیپلز پارٹی کے امیدواروں کے نتائج کو روکا گیا اور بعد میں انہیں ہرایا گیا اور وہاں سے ان امیدواروں کے دوبارہ گنتی کے حق سے بھی ان کو محروم رکھا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے کامیاب امیدوار سیاسی کارکن ہیں اور انشاء اللہ کشمیر اسمبلی میں ان کا بھرپور کردارآپ کو نظر آئے گا۔ سعید غنی نے کہا کہ جب تک پی

ڈی ایم میں پیپلز پارٹی شامل رہی ضمنی انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں کو کامیابیاں ملتی رہی لیکن جب سے ایک سازش کے تحت پیپلز پارٹی کو پی ڈی ایم سے نکالا گیا اس سے شاید پیپلز پارٹی کو اتنا نقصان نہیں ہوا جتنا دیگر اپوزیشن پارٹیوں کو ہورہا ہے اور سب سے زیادہ فائدہ عمران خان کو ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں بارشوں

کے بعد جو صورتحال ہوئی اس کے بعد وزیر اعظم کو یہ سمجھ میں آگیا ہوگا کہ جب زیادہ بارش ہوتی ہے تو زیادہ پانی آتا ہے۔ انہوں نے کہ میں میڈیا سے معذرت کے ساتھ کہتا ہوں کہ جب کراچی میں بارشیں ہوتی ہیں تو باقاعدہ ٹرانسمیشن چلتی ہیں، اپوزیشن کے نمائندوں کو باقاعدہ بٹھا بٹھا کر پوچھا جاتا ہے کہ بتائیں کہ بارش سے کیا کیا نقصانات ہوئے، لیکن اسلام آباد کے معاملے پر

ایسا نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ کراچی یا سندھ بھر میں کسی کو کتا کاٹ لے تو ٹرانسمیشن چلتی ہیں لیکن حالیہ پنجاب کے بہت سے شہروں سے یہ خبریں آئی کہ وہاں بھی کتوں نے لوگوں کو کاٹا ہے اور اس کی ادویات لوگوں کو نہیں ملی لیکن وہاں کے لئے ایسی کوئی ٹرانسمیشن نہیں چلی، انہوں نے کہا کہ اس طرح کے دہرے معیار نامناسب ہیں۔ سعید غنی نے کہا کہ قدرتی آفات کو قدرتی آفات کے طور

پر لینا چاہیے کسی سیاسی جماعت کے کھاتے میں نہیں ڈالنا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں بارشوں سے نقصان ہو یا کراچی میں 90 سالہ بارشوں کا ریکارڈ ٹوٹا ہو اور اس سے نقصان ہوا ہو یہ سب قدرتی آفات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بارش ہوں، سیلاب ہوں یا زلزلہ ہوں یہ سب قدرتی آفات ہوتے ہیں اور ہمیں سب کو مل کر اس کا مقابلہ کرنا چاہیے ناکہ

کسی سیاسی جماعت کو اس کی تنقید کا نشانہ بنانا چاہیے۔ ایک سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ نیبل گبول ہمارے دوست ہیں لیکن اس کو آپ اتنا سنجیدہ نہ لیا کریں، کیونکہ کشمیر کے الیکشن کے حوالے سے کوئی زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے جتنے الیکشن لڑے ہیں وہ اپنے اور عوام کے بل بوتے پر لڑیں ہیں اور ہم نے جو بھی انتخابات لڑیں وہ ہوائوں کے مخالف سمت میں ہیں لڑیں ہیں۔

پیپلز پارٹی کے خلاف انتخابات ہرانے کے لئے کون سازش کرتا ہے کہ سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ سازش ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کرتی آئی ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کشمیر میں وزیر اعظم کے لئے کوئی اچھا سے اچھا انسان بھی آیا تو وہ کچھ نہیں کرسکے گا پی ٹی آئی کے نحوست کے سامنے۔ یہ نالائقوں اور نااہلوں کو ٹولہ ہے

اس میں بندہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ یہ پی ٹی آئی کہ جو سوچ ہے جو نالائقی کی ہے۔ ان کی بنیاد ہی غلط ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ کشمیر میں بالکل دھاندلی ہوئی ہے اور اس میں پیپلز پارٹی کو ہرایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نالائق اور نااہل وزیر اعظم اور ان کے حواریوں کو واضح طور پر پیغام دینا ہوں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کشمیر یا کشمیریوںکے نام پر کسی قسم کی سودے

بازی نہیں ہونے دے گی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان کی انتخابی سیاست کو آزاد چھوڑ دیں تو پاکستان پیپلز پارٹی سے بڑی سیاسی جماعت اس ملک میں اور کوئی نہیں ہے۔ جب بھی انتخابات میں مداخلت بند ہوگی پیپلز پارٹی ملک بھر کی اسمبلیاں ہوں یا کشمیر یا گلگت بلتستان کی اسمبلیاں ہوں وہاں سے جیت جائے گی۔

انہوںنے کہا کہ جہاں بھی عوام کو آزادی سے ووٹ ڈالنے کا موقع ملتا ہے وہاں وہ پیپلز پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں اور اس کی مثال میرا اپنا حلقہ انتخاب ہو یا این اے 249 کے ضمنی الیکشن ہوں جہاں پی ٹی آئی کے ایک وفاقی وزیر کی چھوڑی گئی نشست پر جب عام انتخابات میں پیپلز پارٹی 5 ویں نمبر پر تھی اب وہاں پہلے نمبر پر آئی اور پی ٹی آئی 5 ویں پر آگئی۔

ایک اور سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ سندھ میں اس وقت 7 ہزار سے زائد ایسے اسکولز سروے میں ہیں جن کو ہمیں بند کرنا ہے۔ دوماہ کے دوران ہم نے دو ہزار سے زائد بند اسکولوں کو جو اساتذہ نہ ہونے کی وجہ سے بند تھی ان کو کھول دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت سوشل میڈیا پر جو چارٹ گردش کررہا ہے، جس میں 90 فیصد

اسکولز میں سائنس کے استاد کا نہ ہونا، ہزاروں کی تعداد میں اسکول میں ایک ٹیچر کا ہونا، اسکولز میں لیبارٹریز کا نہ ہونا یہ صرف ایک پروپگنڈہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہمارے 49 ہزار اسکولز میں 44 ہزار پرائمری اسکولز ہیں، جس میں نہ تو سائنس کے استاد کی ضرورت ہے اور نہ ہی لیبارٹیری کی جبکہ 17 ہزار سے زائد اسکولز ایک یا دو کمرے والے اسکولز ہیں جہاں ایک ہی استاد ہوتا ہے تو جو

اعداد و شمار کا ڈھونڈورا پیٹ رہے ہیں ہم ان کی عقل پر ماتم ہی کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صوبے میں 46ہزار اساتذہ کی کمی کو پورا کرنے کے لئے اور ان کو میرٹ پر بھرتی کرنے کے لئے آئی بی اے سکھر کے ذریعے ٹیسٹ کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ایک سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت کو ٹف ٹائم دینا ہے اور اس ملک

کے لوگوں کی ان سے جان چھڑانی ہے تو اپوزیشن کو یکجا ہونا پڑے گا اور یہ اس ملک کے لوگوں کے حق میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم پیپلز پارٹی کی اے پی سی میں بنی تھی لیکن جن وجوہات پر پیپلز پارٹی سے ناراضگی اور شوکاز دیا گیا لیکن کیا جو الائنس پیپلز پارٹی کے خلاف لاڑکانہ میں بنا

جس میں پی ٹی آئی، جی ڈی اے کے ساتھ ساتھ وہ جماعتیں جو اس وقت بھی پی ڈی ایم کا حصہ ہیں وہ بھی شامل ہوئی تو کیا ان جماعتوں کے خلاف کوئی ایکشن کیا گیا، کیا ان کو شوکاز نوٹس جاری کئے گئے یا پھر ان کی شرکت پی ڈی ایم کی مرضی سے تھا۔ مجھے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ پی ڈی ایم میں بھی کچھ حکومتی سہولت کار بیٹھے

ہوئے ہیں، جو پی ٹی آئی کی حکومت کو مستحکم بنانے اور ان کے کلاف اپوزیشن کی تحریک کو کمزور کرنے کے لئے کام کررہی ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کے الیکشن کے قوانین میں کوئی خرابی نہیں ہے لیکن جو جبری طور پر دھونس کے ساتھ ووٹنگ کو متاثرکررہے ہیں اس پر جو قوانین بنے ہوئے ہیں اس پر عمل

درآمد کی ضرورت ہے اور انتخابات میں بیرونی مداخلت کو روکنے کی ضرورت ہے۔ الیکٹرونک مشین کے استعمال کا مطالبہ موجودہ انتخابات میں دھاندلی کو آسان کرنے کا طریقہ ہوگا ، قوانین پر عمل درآمد اور بیرونی مداخلت کو روک کر ہم صاف و شفاف انتخابات کے متحمل ہوسکتے ہیں۔

موضوعات:



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…