مکوآنہ (این این آئی ) عبدالستار ایدھی کی مستند سوانحِ حیات ”کھلی کتاب” کے مطابق ایدھی نے 50 کی دہائی میں سماجی خدمت شروع کر دی تھی، تاہم عوام میں سماجی بہبود کا شعور اجاگر کرنے اور فلاحی ریاست کے قیام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے انھوں نے سنہ 1962 میں بنیادی جمہوریت کے انتخابات میں حصہ لیااور کامیاب بھی ہوئے۔1970 میں
جب بھٹو روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر میدان میں اترے تو ایدھی نے بھی الیکشن میں قسمت آزمائی کی، لیکن ان کی سادگی اور صداقت کا پرچار لوگوں کو متوجہ نہ کر سکا اور وہ ہار گئے۔ ایدھی نے اعتراف کیا کہ سیاسی مہم جوئی ان کی غلطی تھی کیونکہ حکومت کے قریب رہ کر سماجی بہبود کا فروغ، نظام میں رہتے ہوئے نظام کی تبدیلی اور بیداری کی تحریک یہ سارے کام قابل قدر سہی لیکن ساتھی بدعنوان ہوں تو پھر یہ ایک خواب ہی ہے۔ان کی سوانح حیات پر مبنی ”کھلی کتاب” میں صفحہ نمبر133میں لکھا ہے” ایدھی صاحب نے حج کے موقع پر کیسی مناسب دعا کی تھی کہ اے خدا میری انا کو مکمل طور پر فنا کر دے”۔اللہ کو ایسی دعائیں بہت پسند ہے جس میں بندہ اپنے نفس پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے دعا مانگے۔ تو پھر عبد الستار ایدھی کی یہ دعاء کیونکر قبول نہ ہوتی لہذا دنیا جسے خدمت خلق کا مثالی چہرہ مانتی ہے اس نے سارے زندگی نہایت سادگی سے بسر کی۔پاکستان کی فلاحی تنظیم ایدھی فائونڈیشن کے بانی
عبدالستار ایدھی وفات سے قبل جب شدید علیل ہوئے تو پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری کے طرف سے بیرون ملک علاج کروانے کی پیشکش کی گئی ۔جسے ایدھی نے مسترد کر دی تھی اور آخری سانسیں انھوں نے اسی شہر میں لیں جہاں سے انھوں نے خدمت خلق کا بیڑا اٹھایا تھا۔ انھوں نے اپنی ٹیم کی اس طرح تربیت کی کہ ان کی وفات والے
روز بھی ملک بھر میں پھیلے ایدھی فائونڈیشن کی سرگرمیاں معطل یا تاخیر کا شکار نہ ہوئی۔ بلکہ اسی طرح کام جاری رہا جیسے ان کی حیات میں ہوتا تھا۔ ان کی انہی خدمات کے اعتراف میں 1997 میں ان کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کیا گیا۔یہ دستور زندگی ہے کہ اگر آپ کسی بھلے کام میں ہاتھ ڈالتے ہیں تو کچھ بد نیت لوگ آپ کی نیک نیتی کو ضرور
کو ئی غلط رنگ دینے کی کوشش کریں گے۔ جناب عبدالستار ایدھی کو بھی بہت پروپیگنڈوں کا سامنا کرنا پڑا۔جب ایدھی نے، خواتین کے لیے میٹرنٹی ہوم بنایا، پھر اپاہج اور معمر افراد کو چھت فراہم کرنے کی کوشش کی اورلاوارث میتوں کی تدفین کا آغاز کیا تو ان کے خلاف مخالفین نے طرح طرح کی افواہیں پھیلا کر ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی
اس کے علاوہ ان کو ملنے والے عطیات پر بھی سوال اٹھائے۔ لیکن ایدھی بڑھتے گئے اور ان کی نیک نیتی کا عالم یہ تھا کہ ان کی خدمات ملک بھر میں پھیلنے کے بعد دنیا کے دیگر ممالک میں بھی جا پہنچی۔’ضیاالحق کی جانب سے دیا گیا پانچ لاکھ کا چیک ایدھی نے یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ لوگوں میں خیرات دینے کا شعور اجاگر کرنا چاہتے ہیں، سرکاری گرانٹ قبول نہیں کر سکتا۔