ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

بلاول بھٹو نے پی ڈی ایم کو کنفیوژن کا شکار قرار دیدیا

datetime 31  مئی‬‮  2021
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

چار سدہ (این این آئی)پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کو کنفیوژن کا شکار قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ چاہتاہوں اپوزیشن جماعتیں کم ازکم پارلیمنٹ میں کنفیوژن کاشکارنہ ہوں، جو بھی سیاسی جماعت اپنے نظرئیے پرکلیئر ہے وہ حکومت کوزیادہ ٹف ٹائم دے

سکتی ہے،عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی نے خود استعفے دیئے تھے ، ایک ساتھ وقت گزارا ہے ، ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا اچھا نہیں لگے گا ،ہم سب مل کر حکومت اور عمران خان کو نشانہ بنائیں تو سب کیلئے بہتر ہوگا،نالائق، نااہل، سلیکٹڈ حکومت کے سامنے دیواربن کرمقابلہ کریں گے،پی ڈی ایم کے تحت احتجاجی مرحلے کا آپشن موجود تھا، عدم اعتماد کا آپشن بھیاحتجاج کاحصہ تھا ، عدم اعتماد کی صورت میں نہ بزدار رہتا نہ وزیراعظم رہتا ،جب تک ایکشن پلان پر واپس نہیں آئیں گے اْس وقت تک پی ڈی ایم کا حصہ بننے کا فائدہ نہیں۔ اتوار کوپاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے چارسدہ جا کر عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سینئر وائس پریذیڈنٹ امیر حیدر خان ہوتی اور دیگر اے این پی لیڈروں کے ساتھ بزرگ سیاستدان بیگم نسیم ولی خان کی رحلت پر تعزیت کی۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ ، سید نیر حسین بخاری، سینیٹر فرحت اللہ بابر، فیصل کریم کنڈی، ہمایوں خان، شاذی خان ، ملک تہماس، روبینہ خالد، امجد آفریدی، شیر اعظم نذیر، احمد کنڈی، ساجد طوری، فرزند وزیر، ہدایت اللہ اور لیاقت شباب بھی چیئرمین بلاول بھٹو کے ہمراہ تھے۔ بعدازاں اے این پی کے رہنمائوں کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اس

وقت پاکستان کے عوام اس نااہل حکومت کی وجہ سے شدید خطرناک صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں،عوام تاریخی مہنگائی اور بیروزگاری کا سامنا کر رہے ہیں۔ چیئرمین بلاول نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے اے این پی کے ساتھ سیاسی اور نظریات رشتہ ہے اور دونوں جماعتیں ترقی پسند سیاست اور نظریے پر یقین رکھتی ہیں،دونوں پارٹیاں

چاہتی ہیں کہ پاکستان ایک پرامن، خوشحال اور پروگریسیو ملک بنے۔ صحافیوں کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا کہ پی پی پی اور اے این پی دونوں نے پی ڈی ایم کے عہدیداروںنے استعفے دے دئیے ہیں اور اب دونوں نے پی ڈی ایم میں شامل ہونے کا کبھی بھی اظہار نہیں کیا، ان دونوں پارٹیوں نے پی ڈی ایم کے

ساتھ کافی وقت گزار ا ہے تاہم اب ایک دوسرے کو برابھلا کہنا زیب نہیں دیتا۔ انہوںنے کہاکہ ہم پی ڈی ایم نے ایک ایکشن پلان پر عمل پیرا تھے جس میں پارلیمان کے اندر اور باہر جدوجہد کرنا شامل تھا،ہمارے پاس ایک آپشن یہ بھی تھا کہ ہم پارلیمان میں اس حکومت کے خلاف عدم اعتماد لائیں جس کو استعمال نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پی

ڈی ایم ابھی تک پیپلزپارٹی کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور اس نے پارلیمان سے استعفے نہیں دئیے ہیں اور وہ پارلیمان کے اندر حکومت کی مخالفت کرنے کی بات کر رہی ہے۔ انہوںنے کہاکہ گزشتہ ورز پی ڈی ایم کی میٹنگ میں کسی حکمت عملی پر بات نہیں ہوئی اور نہ ہی ان میں کوئی کلیریٹی موجود ہے،ہم چاہتے ہیں کہ اپوزیشن مل کر

پی ٹی آئی ایم ایف بجٹ کی مخالفت کرے اور متفقہ حکمت عملی بنائے۔ انہوں نے کہا کہ بہتر ہوتا کہ ہم مل کر ایکشن پلان پر عمل کرتے اور پارلیمانی آپشن استعمال کرتے تو اب تک پنجاب اور مرکز میں پی ٹی آئی کی حکومت نہ ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ جب تک ایکشن پلان پر واپس نہیں آتے تو پی ڈی ایم میں شمولیت کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایک

سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم یہ بات ضیاء کے دور سے سنتے آرہے ہیں کہ پیپلز پارٹی ختم ہوگئی ہے، پاکستان پیپلزپارٹی کبھی بھی ختم نہیں ہوسکتی،ہمارے کارکن شہید ذوالفقار علی بھٹو کے نظریے پر قائم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پوری اپوزیشن یہ سمجھتی ہے کہ اس وقت ہم مشکل حالات سے گزر رہے ہیں،ہم پارلیمان میں

اکٹھے ہو کر حکومت کی مخالفت کر سکتے ہیں اور ہم پی ٹی آئی ایم بجٹ کی مخالفت کریں گے۔ چیئرمین بلاول نے کہا کہ حکومت اور اس کے ترجمان اور وزراء مستقل جھوٹ بول رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ معیشت بہتر ہوگئی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے عوام شدید معاشی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں

چیئرمین بھٹو نے کہا کہ یہ نااہل حکومت خارجہ پالیسی پر غیرسنجیدہ ہے۔ سی پیک کا منصوبہ صدر زرداری نے متعارف کروایا اور اس وقت سی پیک کے منصوبے کی رفتار انتہائی سست ہے،جو صورتحال افغانستان میں پیدا ہو رہی ہے اس میں اس ناتجربہ کار حکومت کی وجہ سے پاکستان کو نقصان ہو سکتا ہے۔ اور پورے خطے کے لئے

خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ منتخب عوامی نمائندے بہادری سے فیصلے کرتے ہیں لیکن یہ کٹھ پتلی حکومت نہ بھارت کو اور نہ کسی اور کو بہادری سے جواب دے سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حزب اختلاف میں ہر سیاسی جماعت اپنا منشور اور نظریہ ہوتا ہے اور پی پی پی اور اے این پی کا نظریہ اور منشور پروگریسیو ہے اور ہم دونوں ایک پرامن، خوشحال اور ترقی پسند پاکستان چاہتے ہیں۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…