اسلام آباد (نیوز ڈ یسک) حکومت کے ساتھ مذاکرات کی راہ ہموار کرنے اور فوجی قیادت کے ساتھ تعلقات میں نرمی لانے کی مختلف کوششوں کے باوجود پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) اپنی تصادم کی پالیسی پر قائم ہے۔ذرائع کے مطابق، پارٹی کے اندر اور باہر موجود بعض سینئر رہنما اور سابق اراکین خفیہ طور پر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بات چیت کی کوششیں کر رہے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ مسلسل محاذ آرائی نے نہ صرف پارٹی کو تنہا کر دیا ہے بلکہ سیاسی امکانات کو بھی محدود کر دیا ہے۔
تاہم، ان کی تمام کوششیں عمران خان کے غیر مصالحتی رویے کے باعث کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکیں۔باخبر ذرائع کے مطابق، کوٹ لکھپت جیل میں قید پی ٹی آئی رہنماؤں کی جانب سے مذاکرات کی حمایت کے چند ہی دن بعد عمران خان نے اڈیالہ جیل سے جاری ایک سخت پیغام میں واضح کیا کہ “بات چیت کا وقت گزر چکا ہے”۔ ساتھ ہی انہوں نے اگست میں ملک گیر احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کیا، جس سے پارٹی کے اندر مصالحتی کوششوں کو زبردست دھچکا پہنچا۔سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق، جب تک عمران خان فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جارحانہ بیانیہ ترک نہیں کرتے، اس وقت تک پی ٹی آئی کیلئے سیاسی میدان میں واپسی مشکل رہے گی۔ پارٹی کے اندر بھی متعدد رہنما نجی طور پر تسلیم کرتے ہیں کہ جب تک قیادت اور سوشل میڈیا ٹیم فوج پر تنقید کا سلسلہ بند نہیں کرتی، مذاکرات ممکن نہیں۔ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ اگرچہ عمران خان لہجہ نرم کرنے پر آمادہ ہو جائیں تب بھی فوجی قیادت کا ان پر اعتماد بحال ہونا مشکل ہے۔
پچھلے چند برسوں کے دوران عمران خان کی مسلسل تنقید نے ادارے کی اعلیٰ قیادت کے بڑے حصے کو ناراض کر دیا ہے۔تجزیہ کاروں کی رائے میں، اگر پی ٹی آئی کو سیاسی طور پر دوبارہ فعال ہونا ہے تو ممکن ہے کہ متبادل قیادت مثلاً شاہ محمود قریشی یا چوہدری پرویز الٰہی جیسے افراد سامنے آئیں جو مقتدر حلقوں کے لیے قابلِ قبول ہو سکتے ہیں۔تاہم موجودہ صورتحال میں پارٹی کی پالیسی مکمل طور پر عمران خان کے فیصلوں کے تابع ہے۔ ان کے مذاکرات سے انکار نے سیاسی معمولات کی بحالی اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات میں بہت کم گنجائش چھوڑی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ عمران خان کے پاس اس وقت دو ہی راستے ہیں: تصادم اور تنہائی کی سیاست جاری رکھنا یا عملی مصالحت کی راہ اپنانا تاکہ پارٹی کا سیاسی کردار بحال ہو سکے۔ تاحال، فواد چوہدری اور عمران اسماعیل جیسے رہنماؤں کی کوششوں کے باوجود تمام اشارے محاذ آرائی کی پالیسی کے تسلسل کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔















































