لندن(این این آئی)برطانوی سائنس دانوں نے کہا ہے کہ انھوں نے ڈائنوسار کے ڈی این اے کے اجزا جوڑ کر یہ معلوم کر لیا ہے کہ اس کی ساخت کیا تھی۔میڈیارپورٹس کے مطابق برطانیہ کی کینٹ یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے کہا کہ ان کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ڈائنوسار اتنی مختلف انواع و اقسام میں کیسے ڈھل گئے۔ان کے ڈی این اے کے اندر مخصوص تبدیلیوں کے باعث وہ ماحول میں ہونے والی
تبدیلیوں کے ردِعمل میں تیزی سے ارتقائی منازل طے کرتے رہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ 18 کروڑ برس تک دنیا پر راج کرتے رہے۔لیکن ڈائنوسار ایک آخری چیلنج برداشت نہیں کر سکے، اور جب چھ کروڑ 60 لاکھ سال قبل ایک شہابِ ثاقب زمین سے ٹکرایا تو اس کے نتیجے میں آنے والی ماحولیاتی تباہی کا وہ مقابلہ نہیں کر سکے اور معدوم ہو گئے۔حال ہی میں پروفیسر ڈیرن گرفن کی ٹیم نے ریاضی کے ماڈل استعمال کر کے اولین ڈائنوساروں کے ڈی این اے کی ممکنہ جینیاتی خصوصیات کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی۔انھوں نے یہ کام ڈائنوساروں کے جدید رشتے داروں یعنی پرندوں اور کچھوؤں کے ڈی این اے لے کر اس کے اندر ڈائنوساروں کی باقیات کا سراغ لگا کر کیا۔ان کے نتائج سے ظاہر ہوا کہ ڈائنوساروں کا ڈی این اے کروموسومز کی شکل میں تھا۔ عام طور پر پرندوں کے اندر 80 کروموسوم ہوتے ہیں۔ اس کے مقابلے پر انسان کے کروموسومز کی تعداد صرف 46 ہے۔البتہ سائنس دانوں نے بتایا کہ وہ فلم جوراسک پارک کی طرز پر ڈائنوسار تخلیق کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ویسے بھی اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ ڈائنوسار کا ڈی این اے مل جائے۔ یہ مالیکیول بہت نازک ہوتا ہے۔ اس وقت سب سے پرانا ڈی این اے صرف دس لاکھ سال پرانا ہے، جب کہ ڈائنوسار اس سے کہیں پہلے ختم ہو چکے تھے۔