ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں کرپشن اور بدانتظامی انتہاء کو پہنچ گئی اعزازیہ کے نام پر کتنی بڑی رقم لوٹ لی گئی؟تہلکہ  دعویٰ کر دیا گیا

datetime 17  دسمبر‬‮  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(آن لائن)پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی نے قرار دیا ہے کہ وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے اعلیٰ افسران بھی کرپٹ افسران کو بچانے میں مصروف ہیں اور کرپٹ مافیا کے ساتھ ان کا چولی دامن کا ساتھ ہے،وزارت کے ذیلی ادارہ سائنس فاؤنڈیشن کے سابق سربراہ کے خلاف بھاری کرپشن ثابت ہوچکی تھی اور لوٹی ہوئی دولت واپس لے لی گئی ہے۔پی اے سی نے وزارت کے

سیکرٹری کو حکم دیا ہے کہ وہ اعزازیہ کے نام پر افسران کو کروڑوں روپے کی ادائیگی کا معاملہ وزارت خزانہ کو ارسال کرکے توثیق کرائیں ورنہ ریکوری ہوگی۔ذیلی کمیٹی کے کنونیئر سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ وزارت  سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں مالی بدانتظامی انتہاء کو پہنچ چکی ہے۔اجلاس میں سائنس فاؤنڈیشن کی عمارت میں مبینہ بھاری مالی کرپشن کی داستان بھی سامنے آئی ہے۔ذیلی کمیٹی کا اجلاس شیری رحمان کی صدارت میں ہوا جس میں سینیٹر مشاہد حسین سید اور ایم این اے شیراز نے شرکت کی۔اجلاس میں وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔اجلاس میں انکشاف ہوا ہے کہ سائنس فاؤنڈیشن کے سابق سربراہ نے خود کو اگلے گریڈ میں ترقی دیکر ادارہ کا سربراہ بن گیا تھا ،اس دور میں حفیظ اللہ شیخ اور حیدرزمان خٹک نے کرپشن کی انتہاء کردی،جن کے خلاف انکوائری ہوئی ہے اور لوٹی ہوئی دولت واپس لے لی گئی ہے۔پی اے سی نے حکم دیا ہے کہ انکوائری رپورٹ آڈٹ حکام کو فراہم کریں۔اجلاس میں سیکرٹری وزارت اور ایڈیشنل سیکرٹری مجید قیصر کی شدید سرزنش اور جھاڑ پیٹ پر ساتھی کرپٹ افسران کو بچاتے رہے۔شیری رحمان نے کا کہ وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں انتہاء کی بدانتظامی ہے،وزارت خزانہ سے فنڈز حاصل کرکے خرچ نہیں کئے گئے،یہ فنڈز وزارت کی بلڈنگ کی تعمیر کیلئے مختص کئے تھے۔سول ورکس کے لئے 17 کروڑ وصول کرکے

خرچ ہی نہیں کئے،جس پر پی اے سی نے افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ انتہاء کی بدانتظامی ہے۔آڈٹ حکام نے اجلاس کو بتایا کہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں تعینات دیگر اداروں کے افسران نے غلط طریقہ سے11 لاکھ روپے لے کر بھاگ چکے ہیں اور غلط طریقے سے اعزازیہ دیئے گئے  مشاہد  حسین سید نے کہا کہ اعزازیہ دینے کا قانونی جواز کیاہے ۔ایڈیشنل سیکرٹری مجید نے کہا کہ اعزازیہ کی

ادائیگی معمول کا معاملہ ہے یہ معاملہ وزارت خزانہ کو ارسال کرنا ہوگا۔آڈٹ حکام نے بتایا کہ وزارت کے افسران نے الیکٹرانک نمائش پر ڈیڑھ کروڑ روپے خرچ کردئیے جس کا کوئی جواز نہیں ہے ،افسران نے من پسند کمپنی ای زیڈ چینل کو کرایہ پر عمارت دی اور کرایہ وصول ہی نہیں کیا۔پی اے سی نے حکم دیا کہ متعلقہ حکام سے کروڑوں روپے کی وصولی یقینی بنائی جائے۔آڈٹ حکام نے بتایا کہ

افسران نے غلط طریقہ سے 6کروڑ67لاکھ روپے اپنے افسران میں تقسیم کردئیے تھے،یہ رقوم پی ایس ایف کے دوران تقسیم ہوئے،وزارت کے افسران نے افسران میں کروڑوں روپے کی غیر قانونی تقسیم کا دفاع کیا اور کہا کہ عدالت نے بھی یہ اختیار بورڈ آف ٹرسٹی کو دیا ہے جبکہ آڈٹ حکام نے مؤقف اختیار کیا کہ عدالت نے یہ اختیارات افسران کو نہیں دیا،اس لئے اب وزارت میں اس گرانٹ پر تصدیق کردی

اور عدالت نے تمام رقوم ریکور کرنے کی بھی ہدایت کر رکھی ہے۔وزارت کے افسران نے کہا کہ ریٹائرڈ ملازمین نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ڈپٹی آڈٹ جنرل نے ملازمین کو گرانٹ دینے کی مخالفت کی اور کہا بورڈ آف ٹرسٹی کو اختیار نہیں دیا جاسکتا۔شیری رحمان نے کہا کہ پاکستان سائنس فاؤنڈیشن کے بورڈ نے بے ساختہ فیصلہ کیا ہے کہ وزارت خزانہ کے جوائنٹ سیکرٹری مشیر نواز نے کہا کہ

وزارت سائنس کو چاہئے کہ تمام فنانشل فیصلے کی تصدیق اور توثیق وزارت خزانہ سے کرائے یہ قانونی طور پر ضروری ہے۔آڈٹ حکام نے کہا کہ کروڑوں روپے افسران سے واپس لئے جائے جبکہ شیراز اکرم نے کہا کہ رقوم کی واپسی کے لئے سیکرٹری سائنس نے کیا اقدامات کئے ہیں۔وزارت سائنس کے اعلیٰ افسران نے ملازمین میں کروڑوں روپے کے اعزازیہ تقسیم کرنے کا دفاع کیا اور کہا کہ

سائنس فاؤنڈیشن کے بورڈ میں ملک کے نامور سائنسدان ہیں ان کی سفارشات کو بھی اہمیت دینی چاہئے ، تاہم ایم این اے شیراز نے کہا ان تمام فیصلوں کی توثیق کا اختیار صرف اور صرف وزارت خزانہ کے پاس ہے۔پی اے سی نے سپیشل الاؤنس کے تحت6 کروڑ کی ادائیگی کا معاملہ وزارت خزانہ کو ارسال کردیا۔اجلاس میں چیف سائنٹک آفیسر کی تعیناتی پر بھی بحث کی گئی،یہ افسر خود سائنس فاؤنڈیشن کا

قائمقام انچارج تھا جس نے خود کو ترقی دے کر چیئرمین بنا لیا پھر یہ سیکرٹری کے فرائض بھی ادا کرتا رہا ہے،ڈاکٹر رضی نے کہا اس شخص کے خلاف کمیٹی بنائی گئی اس کو معطل کردیا ہے اور ریکوری کرلی گئی ہے۔آڈٹ حکام نے کہا کہ اس سکینڈل کی انکوائری نہیں ہوئی صرف ان کو چارج کرکے ملازمت سے فارغ کیا گیا ہے اور معطلی کے بعد پھر بحال بھی کیا گیا ہے۔ڈاکٹر رضی نے کہا کہ

یہ مسئلہ تین سال تک چلتا رہا ہے اب بورڈ آف ٹرسٹی نے معطل کیا ہے اور مالی فنڈز واپس لے لئے گئے ہیں،یہ افسر حفیظ اللہ شیخ تھے اور حیدر زمان خٹک تھے،جنہوں نے سائنس فاؤنڈیشن میں کرپشن کی انتہاء کی تھی ۔شیری رحمان نے کہا کہ وزارت ان کرپٹ افسران کو بچانے میں مصروف ہے اور لگتا ہے کہ وزارت کے اعلی افسران کرپٹ افسران کے ساتھ مجرم ہیں

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…