اسلام آباد(ویب ڈیسک) زمین کی رات کے وقت خلا سے لی گئی تصاویر پر کی گئی ایک تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر سال مصنوعی روشنیاں زیادہ پھیل رہی ہیں۔ سنہ 2012 سے 2016 کے درمیان اس سیارے پر گھروں سے باہر مصنوعی روشنیاں دو فیصد زیادہ بڑھی ہیں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ بہت سارے میں ممالک میں رات کے ‘رات کے غائب’ ہونے کے ‘حیوانات، نباتات اور انسانوں’
پر منفی اثرات مرتب کررہا ہے۔ سائنسی جریدے سائنس ایڈوانسس میں شائع ہونے والی تحقیق میں ناسا کے سیٹلائٹ ریڈیو میٹر سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کا استعمال کیا گیا ہے، یہ مخصوص آلہ رات کے وقت روشنی کی پیمائش کرتا ہے۔ یہ سے مختلف ممالک میں وقت کے ساتھ ساتھر روشنیوں کی تبدیلیاں ظاہر ہوتی ہیں۔ دنیا کی سب سے ‘روشن ترین ممالک’ جیسا کہ امریکہ اور سپین میں تبدیلی نہیں دیکھی گئی جبکہ جنوبی امریکہ، افریقہ اور ایشیا کے بشتر ممالک میں زیادہ روشن ہوئے ہیں۔صرف چند ممالک میں روشنیوں میں کمی دیکھی گئی جیسا کہ یمن اور شام، جو دونوں جنگ زدہ ممالک ہیں۔ رات کے وقت ساحلی علاقوں اور مکڑی کے جالوں کی طرح پھیلی شہروں کی روشنیاں دیکھنے میں خوبصورت دکھائی دیتی ہیں لیکن منصوعی روشنیوں کے انسانی صحت اور ماحول پر غیرارادی طور پر نتائج بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ جرمن ریسرچ سینٹر فار جیوسائنس ان پوٹسڈم سے وابستہ اس تحقیق کے سربراہ کرسٹوفر کائبا کا کہنا ہے کہ مصنوعی روشنی کا آغاز ‘ہمارے ماحول میں انسانوں کی جانب سے سب سے بڑی ڈرامائی طبعی تبدیلیوں میں سے ایک تھا۔’وہ اور ان کے ساتھیوں کو توقع تھی کہ وہ امیر شہروں اور صنعتی علاقوں میں روشنیوں میں کمی دیکھیں گے کیونکہ وہ سوڈیم لائٹس سے توانائی بچانے والے ایل ای ڈیز پر منتقل ہوگئے ہیں اور سیٹلائٹ کے لائٹ سینسرز ایل ای ڈیز سے خارج ہونے والے روشنی کے نیلے حصے کی
پیمائش نہیں کر سکتا۔ انھوں نے بی بی سی نیوز کو بتایا: ‘میں امید کر رہا تھا کہ امیر ممالک جیسا کہ امریکہ، برطانیہ اور جرمنی، ہم مجموعی طور پر روشنیوں میں کمی دیکھیں گے، خاص طور پر بہت زیادہ روشنی والے علاقوں میں۔ اس کے بجائے ہم نے دیکھا کہ امریکہ ویسا ہی رہا اور برطانیہ اور جرمنی تیزی سے روشن ہو رہے ہیں۔’ برطانیہ کی یونیورسٹی آف ایکزیٹر
کے پروفیسر کیون گیسٹن نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ انسان ‘خود پر خلاف معمول روشنیاں طاری کر رہے ہیں۔”اب آپ کو یورپ میں کہیں بھی آسمان کی رات کے وقت قدرتی روشنی ڈھونڈنے میں مشکل پیش آتی ہے۔’وہ کہتے ہیں کہ ‘عام طور پر جب ہم سوچتے ہیں کہ انسانیت نے ماحول کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے، اس کو ٹھیک کرنا ایک مہنگا کام ہے۔’