نئی دہلی(نیوزوڈیسک)ایک امریکی جریدے نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارت خفیہ طور پر ایک ایسا جوہری مرکز تعمیر کر رہا ہے جو برصغیر میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا مرکز ہوگا جس کی مقصد ملک کی ہائیڈروجن بم بنانے کی صلاحیت میں اضافہ کرنا ہے۔واشنگٹن سے شائع ہونے والے جریدے ’فارن پالیسی‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ مرکز بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹکہ میں تعمیر کیا جا رہے اس مرکز کا اختیار بھارتی فوج کے پاس ہوگا اور یہاں سینٹری فیوجز، جوہری تحقیق کی لیبارٹریاں اور جوہری ہتھیاروں اور جنگی جہازوں کو ٹیسٹ کرنے کی سہولیات دستیاب ہوں گی۔جریدے کا کہنا ہے کہ ان کی معلومات کے مطابق کرناٹکہ کے چلاکیرے کے علاقے میں زیر تعمیر یہ ’نیوکلئیر سٹی‘ یا جوہری شہر 2017 تک مکمل ہو جائے گا اور حکومت کا منصوبہ ہے کہ یہاں نئے ہائیڈروجن بم بنانے کے لیے یورنینیم کی افزودگی کی جائے گی جس سے بھارت کے جوہری ہتھیاروں میں خاطر خواہ اضافہ ہو جائے گا۔رپورٹ کے مطابق خفیہ جوہری مرکز کی تعمیر کا منصوبہ پہلی مرتبہ سنہ 2012 کے آغاز میں اس وقت منظر عام پر آنا شروع ہوا جب کرناٹکہ کے مذکورہ علاقے میں مزدوروں نے ہرے بھرے کھیتوں میں اچانک کھدائی شروع کر دی جسے دیکھ کر یہاں کے خانہ بدوش ’لمبانی‘ قبیلے کے لوگ حیران ہو گئے۔علاقے کے لوگوں کو اس منصوبے کی جوہری نوعیت کا علم اس وقت ہوا جب مذکورہ مقام پر تعمیراتی کام کے بارے میں معلوم ہوا کہ اس کی نگرانی ملک کے دو خفیہ ادارے کر رہے ہیں۔ماہرین کا خیال ہے کہ برصغیر میں اپنی نوعیت کے اس سب سے بڑے جوہری مرکز پر جاری کام سنہ 2017 کے آغاز تک مکمل ہو جائے گا اور اس منصوبے کے مقاصد میں ملک میں سرکاری سطح پر جوہری تحقیق میں اضافہ کرنا، بھارت کے ایٹمی ریئکٹروں کے لیے ایندھن فراہم کرنا اور بھارت کی نئی آبدوزوں کے لیے جوہری توانائی پیدا کرنا شامل ہیں۔لندن اور واشنگٹن میں مقیم بھارتی حکومت کے ریٹائرڈ افسران اور غیر جانبدار ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کے مندرجہ بالا مقاصد کے علاوہ اس جوہری منصوبے کا ایک بڑا مقصد افزودہ یورینیم کی پیداوار میں اضافہ کرنا ہے جس سے نئے ہائیڈوجن بم بنائے جا سکیں گے۔ عرف عام میں ایسے ہائیڈروجن بموں کو ’تھرمو نیوکلیئر‘ ہتھیار کہا جاتا ہے۔جریدے ’فارن پالیسی‘ کا مزید کہنا تھا کہ چین اور پاکستان میں بھارت کے اس نئے منصوبے کی وجہ سے بےچینی پیدا ہو گی اور بھارت کے یہ دونوں پڑوسی اسے اشتعال انگیزی سمجھیں گے۔ ماہرین کو خدشہ ہے کہ اس کے جواب میں چین اور خاص طور پر پاکستان بھی اپنے جوہری ہتھیاروں میں اضافہ کرنا شروع کر دے گا۔اگرچہ بھارت نے پہلا ایٹمی دھماکہ 1974 میں کیا تھا، تاہم بھارت نے کبھی بھی اپنے جوہری منصوبوں اور عزائم کے بارے میں تفیصلات شائع نہیں کی ہیں اور خاص طور ملک سے باہر عام لوگ چلاکیرے کی جوہری تنصیبات اور ان کے مقاصد کے بارے زیادہ نہیں جانتے۔ بھارتی حکومت اپنے اس منصوبے کے بارے میں زیادہ تر خاموش ہی ہے اور اس نے عوامی سطح پر بھی کبھی ایسا وعدہ نہیں کیا کہ مذکورہ منصوبے سے عام لوگوں کو کیا فوائد حاصل ہوں گے۔چونکہ یہ جوہری تنصیبات فوج کے زیر انتظام ہیں اس لیے بین الاقوامی اداروں کو بھی ان تک رسائی حاصل نہیں ہو سکتی۔فارن پالیسی کے بقول چلاکیرے کے دیہاتیوں کی طرح بھارتی پارلیمان کے کئی اہم ارکان بھی اس منصوبوں کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔ دو مرتبہ ملک کی مرکزی کابینہ میں خدمات سرانجام دینے والے ایک معروف سیاستدان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ بھارت میں ارکان اسمبلی کو شاز و نادر ہی ملک کے جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے کچھ بتایا جاتا ہے۔