نیو یارک (نیوز ڈیسک) ایک دور تھا جب سائنس دان دانستہ جینیاتی تبدیلیوں کو ایک خواب سمجھتے تھے ، مگر اب اس طریقہ کار نے خواب کو حقیقت کا روپ دے دیا ہے۔ امریکی سائنس جرنل کے مطابق یہ عین ممکن ہے کہ اسی طریقہ کار کے تحت مستقبل میں جانوروں کے اعضائ انسانی جسم میں پیوند کیے جا سکیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق دنیا بھر میں ہزاروں تجربہ گاہیں ، سکولوں کے طلبہ اور سائنس دان اس تین برس پرانے طریقہ کار کو مختلف شعبوں میں استعمال کرنے پر تحقیق میں مصروف ہیں۔ جرمن خبررساں ادارے کے مطابق رواں برس کے آغاز پر چینی سائنس دانوں نے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے بے اولاد جوڑوں کی مدد کے لیے قائم ایک ہسپتال سے ایک ایسا ایمبریو حاصل کیا تھا ، جس کے زندہ بچنے کا کوئی امکان نہیں تھا ، اس ایمبریو کے ڈی این اے میں تبدیلیاں کی گئیں۔ ڈی این اے میں دانستہ تبدیلیاں لانے کے طریقہ کار کو متعدد حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس طرح اپنی مرضی کی صلاحیتوں اور خاصیتوں کے حامل انسانوں کی پیدائش کا سلسلہ شروع ہو جائے گا اور فطرت کی بجائے انسان دیگر انسانوں کی تشکیل شروع کر دیں گے۔ تاہم امریکی جریدے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بہت سے سائنس دان اس طریقہ کار کی بابت نہایت خوش ہیں ، کیوں کہ اس طرح ایک جین کو اس کے جینوم ایڈیٹنگ جین کے مقابلے میں زیادہ درست مقام تک پہنچایا جا سکتا ہے ، جب کہ یہ طریقہ کار آسان اور سستا بھی ہے