اسلام آباد(نیو زڈیسک )ایک فرانسیسی خاتون کو الیکٹرومیگنیٹک ریڈی ایشن یعنی برقی مقناطیسی شعاعوں سے الرجی ہونا ثابت ہو جانے کے بعد عدالت سے وظیفے کی منظوری مل گئی ہے۔39 سالہ میرین رچرڈ کو بتایا گیا ہے کہ عدالتی فیصلے کے نتیجے میں وہ تین سال تک ہر ماہ 580 یورو حاصل کر سکتی ہیں۔میرین رچرڈ کا کہنا ہے کہ یہ الیکٹرومیگنیٹک ہائپر سینسِٹیوٹی (ای ایچ ایس) سے متاثرہ افراد کے لیے ایک اچھی ’پیش رفت‘ ہے۔ای ایچ ایس کو عالمی ادارہ صحت کی جانب سے تسلیم کیا گیا ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس کی وجوہات واضح نہیں ہیں۔میرین نے دوبارہ سے جنوب مغربی فرانس کے دور دراز علاقے کے پہاڑوں میں ایک گودام میں رہنا شروع کر دیا ہے جس میں بجلی نہیں ہے۔ان کا کہنا ہے کہ وہ روز مرہ استعمال ہونے والے آلات جیسے کہ فون وغیرہ سے بھی متاثر ہوتی ہیں۔عام طور پر ای ایچ ایس کا شکار افراد اس کی علامات سر درد، تھکاوٹ، متلی اور دل کا تیزی سے دھڑکنا بتاتے ہیں۔تولوز کی عدالت نے معذوری کے وظیفے کی منظوری تو دے دی ہے لیکن فیصلے میں ای ایچ ایس کو باضابطہ طور بیماری تسلیم نہیں کیا گیا۔امریکہ میں ایک 12 سالہ بچے کے والدین کا کہنا ہے کہ ان کا بچہ بورڈنگ سکول کے وائی فائی سے انتہائی حساس ہو گیا ہے اور انھوں نے ادارے کے خلاف مقدمہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔سکول نے کمیونیکیشن کمپنی آئسو ٹروپ سے کیمپس میں برقی مقناطیسی شعاعوں کے اخراج کا معائنہ کرنے کو کہاوالدین کا کہنا ہے کہ ان کا بچہ جو بورڈنگ سکول میں زیر تعلیم تھا میں ای ایچ ایس کی تشخیص ہوئی ہے۔ان کا کہنا ہے 2013 میں جب سکول میں وائی فائی لگایا گیا تو اسے سردرد، ناک سے خون آنا اور متلی محسوس ہونا شروع ہو گئی۔جس کے بعد سکول نے کمیونیکیشن کمپنی آئسو ٹروپ سے کیمپس میں برقی مقناطیسی شعاعوں کے اخراج کا معائنہ کرنے کو کہا۔سکول نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’آئسوٹروپ کمپنی نے جب ایکسس پوائنٹ کے اخراج، ریڈیو اور ٹیلی ویڑن کے سگنلوں اور ریڈیو فری یورپ کی شعاعوں کی سطح کو ایک ساتھ چیک کیا تو یہ وفاق اور ریاست کی حفاظتی حدود کے اندر تھیں۔‘بعض ممالک خاص طور پر سویڈن اور امریکہ میں ای ایچ ایس کو سرکاری سطح پر کیفیت کے طور پر تسلیم کیاگیا ہے۔ تاہم یہ بات اب بھی زیر بحث ہے کہ اس کیفیت کے بارے میں دیگر ریاستوں میں بھی قانونی مقدمہ سود مند ثابت ہو گا۔