اسلام آباد (نیوزڈیسک )جرمنی کے شہر بون میں اقوام متحدہ کی موسمی تبدیلی پر ہونے والی کانفرنس میں سیاستدان اس بات پر بحث نہیں کرنا چاہتے کہ کیا ان کی پالیسیوں سے آب و ہوا کی حفاظت ہو پائے گی۔اس کانفرنس میں شریک ممالک نے متفقہ وعدہ کیا ہے کہ وہ عالمی حدت کو دو ڈگری سینٹی گریڈ کی حد سے زیادہ نہیں بڑھنے دیں گے۔تمام ممالک نے اقوام متحدہ کو یقین دلایا ہے کہ وہ گیسوں کے اخراج کو کم کریں گے۔تاہم اہم ممالک اس بات پر بحث کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ آیا ان کے اس قدم سے موسمی تبدیلی پر مثبت اثر پڑے گا یا نہیں۔یورپی یونین اور افریقی ممالک اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ تمام ملک اس بات کو تسلیم کریں کہ عالمی برادری کے وعدوں کے باوجود عالمی حدت کو دو ڈگری سینٹی گریڈ کی حد سے کم نہیں رکھا جاسکتا۔لیکن چین، بھارت اور برازیل کا کہنا ہے کہ کونسا ملک کتنی گیسوں کے اخراج کا ذمہ دار ہے کے معاملے پر اس اجلاس میں نہیں بلکہ پیرس میں دسمبر ہونے والے اجلاس میں بحث کی جائے۔تاہم دسمبر تک بہت دیر ہو چکی ہو گی اور اس حوالے سے کسی قسم کی بات چیت سود مند نہیں ہو گی۔کانفرنس میں شریک چین کے نمائندے سو وی کا کہنا ہے کہ یہ اجلاس اتنی سست روی سے چل رہا ہے کہ اس میں گیسوں کے اخراج کے ذمہ دار ممالک کے بارے میں بات کرنے کا وقت نہیں ہے۔امید کی جا رہی ہے کہ چین اقوام متحدہ کو اگلے چند ہفتوں میں موسمی تبدیلی کے حوالے سے اپنی تجاویز پیش کرے گاانھوں نے بتایا ’ہم گذشتہ 10 دنوں سے طریقہ کار پر بات کر رہے ہیں اور کوئی پیش رفت نہیں سکی۔ ہم اس اجلاس میں بحث کے لیے مزید ایجنڈے شامل نہیں کر سکتے۔‘تاہم چند ممالک اجلاس کی سست رفتار کے لیے چین کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ورلڈ وائلڈ فنڈ کی تسنیپ ایسپ کا کہنا ہے ’اس اجلاس کا مقصد موسمی تبدیلی میں استحکام لانا ہے لیکن اس اجلاس میں مندوبین کو بولنے ہی نہیں دیا جا رہا۔ ہم چاہتے ہیں سائنسی طور پر ہر ملک کے بارے میں تفصیلات دی جائیں کہ وہ موسمی تبدیلی میں بہتری کے لیے کیا قدم اٹھا رہے ہیں تاکہ لوگ اپنے سیاستدانوں کو ذمہ دار ٹھہرا سکیں۔ یہ واضح ہے کہ کوئی بھی ملک اس حوالے سے کچھ نہیں کرنا چاہتا۔‘امید کی جا رہی ہے کہ چین اقوام متحدہ کو اگلے چند ہفتوں میں موسمی تبدیلی کے حوالے سے اپنی تجاویز پیش کرے گا۔ ماہرین امید کر رہے ہیں کہ چین اپنی تجاویز کو پورا کرے گا۔