اسلام آباد (نیوز ڈیسک )امریکی ملٹری سائنسدانوں نے ایسا چھوٹا ڈرون تیار کیا ہے جو ہتھیلی پر آ سکتا ہیں اور جسے فضا سے نیچھے پھینکا جا سکتا ہے بالکل ایک موبائل فون کی طرح مگر جس کے پر بھی موجود ہوں۔اسانتہائی ننھی ہوائی گاڑی کو اسی مخلوق کا نام دیا گیا ہے جس سے متاثر ہو کر اسے تیار کیا گیا یعنی ٹڈا جسے انگریزی میں Cicada کہا جاتا ہے۔ یہ خاص قسم کا پروں والا کیڑا ہوتا ہے جو کئی برس زیر زمین رہ سکتا ہے اور پھر بڑی تعداد میں باہر نکل کر لشکر کی شکل میں فضا سے زمین پر نمودار ہوتا ہے اور وہاں موجود ہر چیز کو کھا جاتے ہیں۔ اسے ٹڈی دل بھی کہا جاتا ہے۔امریکی ملٹری کے نیول ریسرچ لیبارٹری سے منسلک آرون کاہن Aaron Kahn نے خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا، آئیڈیا یہ تھا کہ ہم ٹڈے کی طرز پر UAV اَن مینڈ ایریئل وہیکل یا بغیر انسان کے اڑنے والی مشین کیوں نہیں بنا سکتے۔۔۔ ہم ان کو اتنی بڑی تعداد میں گرائیں گے کہ دشمن کے لیے انہیں چننا اور ختم کرنا ناممکن ہو جائے۔ Cicada دراصل کووَرٹ آٹونومس ڈسپوزایبل ایئرکرافٹ کا مخفف ہے۔ نیول لیب میں فلائٹ کنٹرول انجینیئر کاہن کے مطابق اس ننھے ڈرون کا جو پروٹوٹائپ تیار کیا گیا ہے اس پر محض ایک ہزار ڈالر کی لاگت آئی ہے جب کہ بڑے پیمانے پر تیاری کی صورت میں اس لاگت کو 250 ڈالر فی یونٹ تک لایا جا سکتا ہے۔سیکاڈا میں کوئی موٹر موجود نہیں ہے۔ محض 10 مختلف حصوں پر مشتمل یہ ڈرون کاغذ کے ایک جہاز کی طرح ہے جس میں ایک سرکٹ بورڈ بھی موجود ہے۔فضا سے جب کسی طیارے، غبارے یا کسی بڑے ڈرون سے گرایا جاتا ہے تو یہ جی پی ایس سسٹم کو استعمال کرتے ہوئے ہوا میں گلائیڈ کرتا ہوا اپنے ٹارگٹ تک پہنچتا ہے۔ تین برس قبل ایریزونا میں کیے گئے ایک ٹیسٹ کے دوران سیکاڈا ڈرون کو 57600 فٹ کی بلندی سے فضا میں چھوڑا گیا، یہ بلندی قریب 17.5 کلومیٹر بنتی ہے۔ یہ ننھا ڈرون ہوا میں تیرتا ہو اپنے ہدف سے محض 15 فٹ کی دوری پر گرا۔سیکاڈا ڈرون قریب 74 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پرواز کر سکتا ہے اور چونکہ اس میں کوئی انجن یا موٹر نہیں ہے لہذا اس کی یہ پرواز بالکل خاموشی سے ہوتی ہے۔ ننھی ہوائی گاڑی کو اسی مخلوق کا نام دیا گیا ہے جس سے متاثر ہو کر اسے تیار کیا گیا یعنی ٹڈا جسے انگریزی میں Cicada کہا جاتا ہیننھی ہوائی گاڑی کو اسی مخلوق کا نام دیا گیا ہے جس سے متاثر ہو کر اسے تیار کیا گیا یعنی ٹڈا جسے انگریزی میں Cicada کہا جاتا ہے۔نیول ریسرچ لیبارٹری کے ایرو اسپیس انجییئر ڈینیئل ایڈورڈز Daniel Edwards کے مطابق، یہ ایک اڑتے ہوئے پرندے کی طرح لگتا ہے اور اسے دیکھنا بہت مشکل ہے۔ایڈورڈز کے مطابق، یہ ایک طرح سے روبوٹک کبوتر ہیں، آپ انہیں بتائیں کہ کہاں جانا ہے اور یہ اسی مقام پر پہنچ جائیں گے۔ سیکاڈا کی تجرباتی پرواز کے دوران اس پر مختلف سینسرز نصب کیے گئے تھے جو موسم کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں جن میں درجہ حرارت، ہوا کا دباو¿ اور نمی کی شرح وغیرہ شامل ہیں۔سائنسدانوں کے مطابق اس ننھے ڈرون میں ایسے سینسرز اور مائیکروفون بھی نصب کیے جا سکتے ہیں کہ جو میدان جنگ میں دشمن کے بارے میں معلومات فراہم کیے جا سکتے ہیں۔ سردست اس کے ذریعے ویڈیو معلومات حاصل کرنا مشکل ہے کیونکہ کسی دوسرے مقام تک یہ معلومات منتقل کرنے کے لیے بہت زیادہ بینڈ وڈتھ کی ضرورت ہوتی ہے۔تجرباتی طور پر اس ڈرون کو میدان جنگ میں استعمال سے پہلے اسے موسمیاتی معلومات حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں