اسلام آباد(آن لائن)اسلام آباد ہائی کورٹ چیف جسٹس اطہر من اللہ کی عدالت نے سابق چیف جج گلگت بلتستان سے متعلق خبر پر کیس کی سماعت کرتے ہوئے ہائیکورٹ کا باقاعدہ توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ میر شکیل الرحمان، انصار عباسی ، عامر غوری کو باقاعدہ شوکاز نوٹس جاری کر دیے گئے عدالت نے دوران سماعت کہا کہ بادی النظر میں بیان حلفی جعلی لگتا ہے
جس وقت اپیل ہوئی تھی اس وقت جسٹس عامر فاروق اور میں دونوں ملک سے باہر تھے عدالت نے میر شکیل الرحمان اور انصار عباسی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہمارے رجسٹرار آفس سے ہی معلومات لے لیتے کیا یہ ہے آپ کی انویسٹی گیشن ،کیا الیکشن سے پہلے سماعت کی اور فیصلے کی خواجہ حارث نے کوئی درخواست دی؟سترہ تاریخ کو پہلی سماعت کے بعد چھٹیوں کے ہوتے بھی 31 جولائی کی انہیں دوسری تاریخ دی گئی کسی وکیل سے ہی پوچھ لیتے کیا ایک ہی سماعت میں انہیں ضمانت مل سکتی تھی؟ دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ میر شکیل الرحمان صاحب آپ سامنے آجائیں بھاری دل کے ساتھ آپ کو طلب کیا ہے ،سوشل میڈیا اور اخبار کے درمیان فرق ہوتا ہے ،آپ کی رپورٹ اس ہائیکورٹ کی خودداری سے متعلق ہے اگرا پنے ججوں پر مکمل اعتبار نہ ہوتا تو یہ کارروائی شروع نہ کرتا،اس عدالت پر بھی عوام کا اعتبار توڑنے کی کوشش کی گئی ہے ، بدقسمتی سے آپ نے ایسا کیا ہے ، اس موقع پر عدالت نے میر شکیل الرحمان کو دی نیوز کی ہیڈ لائن پڑھنے کا حکم دیا جس پر میر شکیل الرحمن نے کہا کہ میری عینک پتہ نہیں کہاں پر ہے جس پر عدالت نے کہا کہ آپ نہیں پڑھ سکتے تو انصار عباسی صاحب آپ پڑھیں، اس موقع پر انصار عباسی نے عدالت سے استدعا کی کہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا سوال ہے اور مجھ پر آکر بات رکتی ہے ،عدالتی حکم پر انصار عباسی نے ہیڈ لائن پڑھ کر سنا دی ،یہاں عدالت نے استفسار کیا کہ کیا کوئی بھی ایک بیان حلفی جاری کر دے گا آپ اسے فرنٹ پیج پر چھاپیں گے؟جب اپیل دائر ہوئی میں اور جسٹس عامر فاروق ملک میں ہی نہیں تھے ،کیا اس عدالت کے جج کسی سے ہدایت لیتے ہیں؟یہ بیان حلفی کیا کسی عدالت میں پیش کیا گیا؟ ایک بار پھر انصار عباسی نے عدالت سے استدعا کی کہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں جس پر عدالت نے کہا کہ آپ کیا کہیں گے آپ جے جو کرنا تھا کر دیا اس موقع پر عدالت نے رانا شمیم کی کمرہ عدالت میں عدم موجودگی پر اظہار برہمی کیا رانا شمیم کے بیٹے نے عدالت کو بتایا کہ وقت دیں وہ آجائیں گے عدالت نے کہا کہ انہیں جمعے کے دن آنا ہو گا عدالت نے
سوال اْٹھایا کہ میرے سامنے کوئی چیف جسٹس ایسی ہدایات دے تو فوراً سپریم جوڈیشل کونسل کو بتائوں گا،تین سال یہ سب دیکھ کر وہ جج صاحب خاموش رہے؟ تین سال بعد اپیلوں پر سماعت سے دو دن پہلے یہ پراسرار بیان آگیا؟ہم پر تنقید کریں لیکن انصاف کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی نہ کریں، عدالت نے انصار عباسی سے استفسار کیا کہ انصار عباسی صاحب جس بنچ نے سزائیں معطل کیں وہ کس کے کہنے پر بنا؟آپ کو پتہ ہے ہم نے روزانہ سماعت کر کے سزائیں معطل کیں آپ کو پتہ ہے یہ ایک غیر
روایتی بات تھی آپ سب کو چیلنج ہے زرہ برابر ثبوت لے آئیں میرے جج کسی سے ہدایت لیتے رہے آپ سب کو چیلنج ہے کوئی ایک ثبوت لے آئیں میں ذمہ دار ہوں گا ،عدالت نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ اٹارنی جنرل صاحب بتائیں غلط بیان حلفی ہوا تو نتائج کیا ہوں گے جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ یہ سیدھا سیدھا مجرمانہ فعل ہے ،چھ تاریخ کو رانا شمیم کے بھائی فوت ہوئے دس کو وہ لندن جا کر بیان ریکارڈ کرا رہے ہیں اپیلوں سے پہلے یہ سب کیسے ہوا اس کی ٹائمنگ دیکھنا ہو گی انصار عباسی نے
عدالت کو بتایا کہ میں نے بطور صحافی اپنی ذمہ داری پوری کی جس پر عدالت نے کہا کہ کیا آپ صرف پیغام رساں ہیں؟عدالت نے پوچھا کہ میر شکیل الرحمان بتائیں کیا گارڈین ایسی خبر چھاپے گا؟ جس پر انصار عباسی نے عدالت سے کہا کہ جو کچھ کیا میں نے کیا چیف ایڈیٹر اور ایڈیٹر کیخلاف کارروائی نہ کریں اس موقع پر عدالت نے کہا کہ آپ ثبوت لیکر آئیں ہم سابق چیف جسٹس پاکستان کیخلاف بھی کارروائی کریں گے یہاں انصار عباسی نے عدالت سے کہا کہ میں نے جو کیا کورٹ کی عزت کیلئے کیا
جس پر عدالت نے کہا کہ کیا یہ سب کورٹ کی عزت ہے آپ نے رجسٹرار سے بھی نہیں پوچھا؟ جس پر انصار عباسی نے کہا کہ میرے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ضرور کریں لیکن الزامات کی انکوائری کرائیں اس موقع پر عدالت نے کہا کہ آپ چیزوں کو سیاسی انداز میں نہ لیں اس موقع پر انصار عباسی نے عدالت سے کہا کہ یہ الزامات سابق چیف جج کے سابق چیف جسٹس پر ہیں جس پر عدالت نے کہا کہ نہیں یہ
الزامات اس ہائیکورٹ پر ہیں الزام اپیلوں پر سماعت کرنے والے بنچ کے سربراہ پر ہیں ،عمومی تاثر یہی ہے کہ سامنے آنے والا بیان حلفی جعلی ہے، عدالت نے میر شکیل الرحمان، انصار عباسی عامر غور اور سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کو بھی شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے حکم دیا کہ سات دن کے اندر تحریری جواب جمع کرایا جائے عدالت نے کیس کی سماعت 26 نومبر تک ملتوی کر دی۔