اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہر دور حکومت میں قریبی تعلقات رہے ہیں اور کم وبیش تمام ہی حکمرانوں نے اپنے اپنے ادوار حکومت میں سعودی عرب کے دورے کئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی 2018 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلا دورہ سعودی عرب کا ہی کیا تھا اور اب تک وہ نو مرتبہ سعودی عرب کا دورہ کر چکے ہیں۔روزنامہ جنگ میں فاروق
اقدس کی خبر کے مطابق بحیثیت وزیراعظم پاکستان اس مرتبہ بھی ان کا انتہائی پرجوش استقبال کیا گیا عبادات اور زیارات کیلئے خصوصی اہتمام اور اقدامات کئے گئے ۔ اپنے تین روزہ دورے کے دوران انہوں نے انتہائی مصروف وقت گزارہ اس دوران دونوں ملکوں کے درمیان کئی معاہدے بھی ہوئے ہیں اور مفاہمتی یاداشتیں (ایم او یو) پر دستخط بھی ۔ وزیراعظم کے دورہ سعودی عرب سے کیا کھویا اور کیا پایا کی بحث تو شروع ہوگئی ہے تاہم اتنا ضرور ہے کہ اس دورے سے اسلام آباد اور ریاض کے درمیان تعلقات میں جو سرد مہری پائی گئی تھی وہ ختم ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ یاد رہے کہ بھارت کی جانب سے کشمیر کی حیثیت تبدیل کئے جانے کے متنازعہ فیصلے سے پاکستان کے سرکاری ردعمل سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کشیدگی کا شکار دکھائی دے رہے تھے اور حالات اس نہج پر پہنچ گئے تھے کہ موجودہ حکومت کو سعودی عرب نے معیشت کو سہارا دینے کیلئے تین بلین ڈالر کا جو قرضہ فراہم کیا تھا نہ صرف اس کی واپسی کا تقاضا شروع کر دیا تھا بلکہ ستمبر میں ایک بلین ڈالر فوری طور پر ادا کرنے کے پیغامات دینے
شروع کر دیئے تھے جبکہ ریاض نے اسلام آباد کو ادھار تیل کی فراہمی کے معاہدے کی تجدید بھی نہیں کی تھی ۔ سعودی ولی عہد جو خود کو سعودی عرب میں پاکستان کا سفیر قرار دے رہے تھے لیکن سعودی عرب کا یہ طرز عمل پاکستان کیلئے نہ صرف انتہائی غیر متوقع تھا بلکہ دونوں ملکوں کے تاریخی طور پر قریبی تعلقات میں پہلا واقعہ تھا لیکن پھر اچانک وزیراعظم پاکستان کو سعودی
عرب کے دورے کی دعوت اور ان کے استقبال کیلئے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا خود ایئرپورٹ پر آنا بعض حلقوں کے نزدیک خاصا معنی خیز ہے جو ریاض کے طرز عمل میں اس تبدیلی کو افغانستان میں امریکی فوجوں کے انخلاء کے بعد پاکستان سے افغانستان کی نگرانی اور عمل دخل کیلئے ’’ امریکی تقاضوں‘‘ کی تکمیل کے ضمن میں ایک پیشرفت قرار دے رہے ہیں۔ ویسے بھی دورہ سعودی عرب کے جن ’’ثمرات‘‘ کا ذکر سامنے آیا ہے ان کا حصول طویل المدت ہے۔ معاہدوں میں بھی اور مفاہمتی یاداشتوں میں جن کی تکمیل کا دورانیہ غیر معینہ مدت ہوتی ہے۔