اسلام آباد (آن لائن) وز یر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا ہے نظام کی تبدیلی کیلئے وزیراعظم عمران خان کی جنگ جاری ہے۔ حکومت یا وزیر اعظم کی شریف خاندان سے کوئی ذاتی لڑائی نہیں ، شہباز شریف کے بیرون ملک جانے کے فیصلے پراپیل کا حق ہمارے پاس ہے،انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کی گارنٹی کیسے مانی
جائے وہ تو ایک دوسرے مفرور کی گارنٹی نہیں دے سکے، نواز شریف کے لندن میں ایک فلیٹ کی قیمت 45ملین پونڈ ہے ، 20سال میں اربوں روپے ملک سے باہر منتقل کئے،نیب نے 400ارب روپے قومی خزانے میں جمع کروائے ہیں ۔ اسلام آباد میں مشیر داخلہ و احتساب شہزاد اکبر کے ہمرا ہ پریس کانفرنس کر تے ہوئے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ شریف خاند ان کا پہلا بچہ بعدمیں پیدا ہو تا اس لندن میں اپارٹمنٹ پہلے بن جا تا ہے نواز شریف کے لندن میں ایک فلیٹ کی قیمت 45ملین پونڈ ہے نظام کی تبدیلی کیلئے وزیراعظم عمران خان کی جنگ جاری ہے حکومت یا وزیرا عظم کی شریف خاندان سے نہ کوئی ذاتی دشمنی ہے نہ کہ لڑائی حکومت صرف ملک و قوم کا پیسہ لوٹنے کیلئے ان کا آئین و قانون میں رہتے ہوئے احتساب کر رہی ہے 20سال میں اربوں روپے ملک سے باہر منتقل کیئے نیب نے 400ارب روپے قومی خزانے میں جمع کروائے ہیں ۔ منی لانڈرنگ کے پیسے سے شریف خاندان نے لندن میں جائیدادیں خریدیں پانامہ دستاویزات نے بھی نواز شریف کی کرپشن کو بے نقاب کیا ملک کے جمہوری نظام میں اختیارات محدودہیں قانون اور آئین کے دائرے میں رہ کر اقدامات کیے جا سکتے ہیں مریم نواز نے کہا تھا کہ لندن میں ہماری کوئی جائیداد نہیں ہے شہباز شریف کے بیرون ملک جانیکے فیصلے پراپیل
کا حق ہمارے پاس ہے شہباز شریف نے نواز شریف کی ملک واپس آنے کی گارنٹی دی تھی ۔فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ہمیں حکومت ملی ہے لیکن نظام کے خلاف ہماری جنگ جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری عدالتوں نے پاناما کیس کا فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں یہ تاثر بنا کہ عدالتی نظام کرپشن کے خلاف جنگ میں حصہ ہے لیکن
کچھ معاملات میں عوام کی سوچ ہے کہ نظام تاحال تبدیل نہیں ہوسکا۔فواد چوہدری نے کہا کہ ’اور حقیقت بھی یہ ہی ہے کہ نظام تبدیل نہیں ہوسکا، ہم نے حکومت لی ہے لیکن نظام کے خلاف ہمارے جنگ تاحال جاری ہے‘۔انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے نائب صدر کی جانب سے علاج کے لیے بیرون جانے کی درخواست پیش کی گئی اور
اگلے درخواست پر سماعت ہوئی اور انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی گئی تاہم اس تمام معاملات میں حکومت سے کوئی مؤقف شامل نہیں رہا۔وفاقی وزیر نے کہا کہ شہباز شریف کو علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کے مطلب یہ ہے کہ ان ہزاروں قیدیوں کو حقوق کو ایک طرف رکھ دیں اور انہیں بھول جائیں۔
پاکستان میں طبقاتی نظام کو تسلیم کرلیں اور قیدیوں کو جیل سے باہر علاج کرانے کا حق بھی نہیں ہے۔فواد چوہدری نے کہا کہ اس طرح ہمارا معاشرہ تباہ ہوجائے،حکومت کے علاوہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر کو کہتا تھا کہ تحریک چلانا چاہتے ہیں کہ نواز شریف کو وطن واپس
لائیں کیونکہ خود اپوزیشن سمجھتی ہے کہ نواز شریف مفرر ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارا واضح مؤقف ہے کہ قانون کی بالادستی یکساں ہو جس میں نواز شریف خاندان کے لیے الگ اور غریب کے لیے الگ نہ ہو۔فواد چوہدری نے کہا کہ صوبائی وزیر صحت راشد یاسمین، شہباز شریف اور نواز شریف سے کہیں زیادہ بیمار ہیں لیکن ادھر ہی
علاج کروارہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ شہباز شریف اور نواز شریف کو ملک میں رہ کر ہی اپنا علاج کروانا چاہیے تھا۔ اس موقع پر وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے داخلہ مرزا شہزاد اکبر نے کہا کہ ‘مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے عدالتی فیصلے کے بعد عوام کو گمراہ کرنا شروع کردیا ہے اور شہباز شریف کے خلاف شہزاد اکبر کے پاس کوئی
ثبوت نہیں ہیں اس لیے میں یہاں 55 جلد پر مشتمل ثبوت لے کر آیا ہوں جس میں 100 سے زائد گواہان کے دستاویزی ثبوت ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ جلدوں پر مشتمل دستاویزی ثبوت ریفرنس کے ساتھ عدالت میں داخل ہوچکے ہیں۔شہزاد اکبر نے مسلم لیگ کے رہنماؤں کو مخاطب کرکے کہا کہ یہ ہیں وہ ذرائع جو آپ بتانے سے قاصر ہیں
لیکن میرے پاس ہیں اور عید کے بعد ٹرائل آگے چلے گا۔ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف پر منی لانڈرنگ کے الزامات ہیں جنہیں صرف نظر کردیا گیا اور اسی منی لانڈرنگ کی وجہ سے پاکستان آج فیٹف کی گرے لسٹ میں ہے۔شہزاد اکبر نے کہا کہ حکومت شہباز شریف کی ضمانت کے فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کو سوچ رہی ہے۔ان کا کہنا تھا
کہ عدالت نے شہباز شریف کو بلیک لسٹ کرنے کا حکم دیا تھا۔شہزاد اکبر نے نیب کو مشورہ دیا کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف احتساب ادارے کو اپیل کرنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ جب یہ ملک سے باہر جائیں گے تو اس کیس میں 14 ملزمان کا مقدمہ نہیں چل سکے گا جبکہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما عطا تارڑ پی ایس او تھے اور اب کہتے ہیں کہ میں وکیل ہوں۔شہزاد اکبر نے مزید کہا کہ آمدن سے زائد اثاثوں کا سوال ہمیشہ ایک پبلک اکاؤنٹ آفس ہولڈرز پر ہی اٹھتا ہے یہ صحافی یا عام شخص پر نہیں لگایا جا سکتا۔