اسلام آباد(این این آئی)اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے طاقتور بیوروکریسی کے زیر ملکیت اثاثوں کی تفصیلات عوامی سطح پر لانے سے انکار کردیا۔میڈیا رپورٹ کے مطابق اسٹیبلشمنٹ ڈیژن نے مؤقف اپنایا کہ یہ ایک محنت طلب کام ہے جس کے لیے غیر معمولی وقت درکار ہے۔اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے بیوروکریسی کے اثاثوں کی تفصیلات ظاہر کرنے
سے متعلق کہا کہ یہ ان کے دائرے میں نہیں آتا اور ان کے اثاثوں کے انکشاف سے سرکاری ملازمین کے مفادات خطرے میں پڑ جائیں گے۔اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے پاکستان انفارمیشن کمیشن (پی آئی سی) کے اس حکم کو چیلنج کیا ہے جس میں سرکاری ملازمین خاص طور پر پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس اور پولیس سروس آف پاکستان جیسے طاقتور سروس کیڈروں کے افسران کے اثاثوں کی تفصیلات سامنے لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے کہا کہ طلب کی گئی معلومات میں ‘سرکاری افسر’ کی اصطلاح استعمال کی گئی جس میں وفاقی وزارتوں، ڈویژنز، خودمختار اور نیم خودمختار اداروں اور اس سے وابستہ محکموں میں کام کرنے والے بشمول بیرون ملک تعینات عہدیدار بھی شامل ہیں۔درخواست میں کہا گیا کہ اس طرح کے وسیع ڈیٹا کو رکھنا اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی ذمہ داری نہیں ہے، مزید یہ کہ متعلقہ اداروں سے ڈیٹا جمع کرنے میں غیر معمولی وقت درکار ہوگا۔پٹیشن میں دعویٰ کیا گیا کہ مطلوبہ معلومات عوامی ریکارڈ نہیں ہے کیونکہ سرکاری ملازمین کے سلسلے میں منظور کیے جانے والے فیصلے اور حتمی احکامات کو عوامی ریکارڈ قرار دیا جاسکتا ہے۔اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے کہا کہ سرکاری ملازمین نے اثاثوں کے اعلامیے کے فارم میں جو تفصیلات فراہم کی ہیں
وہ معلومات تک رسائی کے قانون کے زمرے میں نہیں آتیں۔اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے کمیشن کے حکم کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی۔ندیم عمر نامی شہری نے پاکستان انفارمیشن کمیشن میں درخواست جمع کرائی تھی جس کے جواب میں گزشتہ ماہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے پبلک انفارمیشن افسر کو ہدایت کی گئی تھی کہ اس
آرڈر کی وصولی کے 10 دنوں میں کمیشن کو معلومات فراہم کی جائیں۔درخواست گزار نے اثاثوں کے اعلانات، افسران کی فہرست، ان کا عہدہ اور موجودہ پوسٹنگ، ان افسران کے ناموں کی تفصیلات طلب کیں جن کی اثاثوں کی تفصیلات جمع نہ کرانے کی وجہ سے ترقی روک دی گئی تھی اور افسران کی فہرست، ان کے عہدہ اور موجودہ
پوسٹنگ جیسی معلومات طلب کی تھیں۔درخواست میں پوچھا گیا کہ آیا یہ حقیقت ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے ان افسران کو ترقی دینے کا فیصلہ نہیں کیا جنہوں نے اپنے اثاثے ظاہر نہیں کیے؟ اور کیا اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے افسران کے اثاثوں میں اضافے سے متعلق کوئی انکوائری کی تھی؟درخواست گزار نے ان کیسز کی فہرست یا ان
افسران کی فہرست بھی طلب کی جن کے کیسز کسی بھی ایجنسی کو اپنے اثاثوں میں اضافے سے متعلق تصدیق کے لیے بھیجے جاتے ہیں اور ساتھ ہی ان کی موجودہ حیثیت کی تفصیلات بھی فراہم کرنے کی درخواست کی۔چیف انفارمیشن کمشنر محمد اعظم اور انفارمیشن کمشنرز زاہد عبداللہ اور فواد ملک پر مشتمل پی آئی سی نے اسٹیبلشمنٹ
ڈویژن کو نوٹس جاری کیا جس نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔اس کے بعد کمیشن نے حکم کا سابقہ حصہ منظور کرلیا۔کمیشن نے کہا کہ عوامی مفادات سرکاری ملازمین کی رازداری کو پہنچنے والے نقصان سے کہیں زیادہ ہیں جو اپنے اثاثوں کی تفصیلات پیش کرنے کی اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہے ہیں۔پی آئی سی نے کہا کہ پاکستان کے شہری، جو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے لیے ٹیکس دیتے ہیں، ان افسران کے نام اور عہدہ اور تعداد جان سکیں گے جو اپنے اثاثے ظاہر نہیں کر رہے۔