کراچی (آن لائن)قائد حزب اختلاف حلیم عادل شیخ گرفتاری کے بعد ایس ایس پی ملیر کی آفس سے میں کہا ہے کہ میں نے خدشات ظاہر کئے تھے کہ مجھ پر حملہ کروایا جائے گا۔ مراد علی شاہ کے والد نے مرتضیٰ بھٹو پر پولیس کے ذریعے حملہ کروا کر قتل کروایا تھا، مجھ پر بھی پولیس کی موجودگی میں حملہ کیا گیا۔ میں حلقہ پی ایس 88
میں موجود نہیں تھا جب دیکھا ہمارے پی ٹی آئی کے لوگوں پر حملے کئے جارہے ہیں تب آیا پاکستان پیپلزپارٹی کے غنڈوں نے پولیس کی موجودگی مجھ پر فائرنگ کی اور کارکنوں پر تشدد کیا گیا۔ بلاول زرداری اور مراد علی شاہ نے اپنے غنڈوں کو پولیس کے ہمراہ مجھے قتل کرنے کا ٹاسک دیکر بھیجا تھا۔ یہ لوگ چاہتے ہیں حلیم عادل شیخ کو راستے سے ہٹایا جائے۔ پہلے مجھے لالچ دی گئی پھر نقصان پہنچایا گیا اب حملے کئے جارہے ہیں۔میری سیکیورٹی سندھ حکومت نے واپس لی تھے اپنے کچھ پرائیوٹ سیکیورٹی گارڈ کے ساتھ تھا۔پولیس نے ہمارے گارڈ کو پکڑ لیا لیکن پاکستان پیپلزپارٹی کے غنڈے جنہوں نے فائرنگ کی ان کو نہیں پکڑا۔ ہم پر امن شہری ہیں ہمارے کارکنوں سے زیادتی ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔کپتان کا سپاہی ہوں اپنے لوگوں کو دفاع کریں گے اور اس کرپٹ مافیا سے لڑتا رہوں گا۔ ایس ایس پی ملیر نے کہا ہے کہ الیکشن کمشنر کے حکم پر مجھے حلقہ سے باہر نکالا ہے آفس لاکر مجھے کسی کیس میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ الیکشن کمشنر مجھے جواب دیں کہ ہمارے ایجنٹوں کو پولنگ اسٹیشن سے باہر نکالا گیا ان کو سیکیورٹی کیوں نہیں دی گئی۔ ایک سازش کے تحت پی ایس 88 کے الیکشن کو چرایا جارہا ہے۔ دوسری جانب قائد حزب اختلاف حلیم عادل شیخ کے ترجمان محمد علی بلوچ نے کہا کہ ملیر پولیس
نے پاکستان پیپلزپارٹی کے کارکنوں سے درخواست لیکر ایک مقدمہ درج کر کے حلیم عادل شیخ کی گرفتاری ظاہر کر دی ہے جن کو سی آئی اے سینیٹر کراچی منتقل کیا گیا ہے۔ ترجمان نے کہا پیپلزپارٹی بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکی ہے جیلوں اور مقدموں سے ڈرنے والے نہیں ہیں سندھ کی پولیس سیاسی غلام بن چکی ہے۔ حلیم عادل شیخ نے بلاول زرداری،مراد علی شاہ سمیت ان کی کرپٹ ٹیم کو بے نقاب کیا ہے جس وجہ سے مسلسل انتقامی کارروائیاں کی جارہی ہیں۔