اسلام آباد (اے پی پی)وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے کہ حکومت کو مہنگائی ورثہ میں ملی ہے، ٹھیک ہونے میں وقت لگے گا، ماضی میں جان بوجھ کر ایسی پالیسیاں بنائی گئیں جن کی وجہ سے برآمدات نہیں بڑھ سکیں۔ بحرانی کیفیت سے نکلنے کے لئے سخت فیصلے کرنا پڑے۔
حکومتی اقدامات سے ٹیکس وصولی میں اضافہ اور اخراجات میں کمی ہوئی، اب تک حکومت نے اسٹیٹ بینک سے ایک روپیہ نہیں لیا، 6 ہزار ارب روپے ماضی کے قرضوں پر سود کی مد میں ادا کئے گئے، پچھلے سال کے مقابلہ میں دو گنا ری فنڈ ادا کیا ہے، بجلی اور گیس صارفین کے علاوہ ٹیوب ویلوں پر بھی سبسڈی دے رہے ہیں۔ برآمدات اور ٹیکس وصولی میں اضافہ ہوا ہے، اسٹاک مارکیٹ چار سال کے بعد بلند ترین سطح پر ہے، عوام کو خوشحال بنانا بڑا چیلنج ہے، کورونا کی صورتحال میں ڈیڑھ کروڑ خاندانوں کو شفاف طریقے سے مالی معاونت فراہم کی گئی، انضمام شدہ اضلاع میں 152 ارب روپے خرچ کریں گے، احساس پروگرام کا بجٹ دوگنا کر کے 192 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ ترقی وہ ہے جس کا فائدہ عوام تک پہنچے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایوان بالا میں ملک میں قرضوں اور معاشی صورتحال سے متعلق تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے کیا۔ وفاقی وزیر خزانہ حفیظ شیخ نے کہا کہ پاکستان کے عوام کے سامنے سب کا
ماضی اور حال شیشے کی طرح واضح ہے، ہم سے عوام کی امیدیں وابستہ ہیں، ہمیں انہیں مایوس نہیں کرنا چاہئے۔ پوائنٹ سکورنگ کر کے ایک دوسرے سے لڑنے سے گریز کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ جب یہ حکومت آئی تو اسے اقتصادی بحران ورثہ میں ملا، ملک قرضوں کے
بوجھ تلے دبا ہوا تھا، کئی ایسی پالیسیوں نے ملک کو اس مقام پر کھڑا کیا کہ ہر چیز دباﺅ کا شکار تھی، بیرونی تجارت میں بحران تھا، اندرونی مالیاتی نظام تباہی کے قریب تھا۔ گزشتہ حکومت نے ایک ایسی پالیسی اختیار کی جس سے اس وقت کے اقتصادی ماہرین بھی پریشان تھے۔ اس پالیسی
میں جان بوجھ کو ڈالر کو سستا رکھا گیا جس کے منفی اثرات مرتب ہوئے، اس سے بیرون ملک اشیاءکی قیمتیں سستی ہو جاتی ہیں، ہر آدمی بیرون ممالک سے اشیاءخریدنے کی خواہش رکھتا ہے جس کے باعث مقامی صنعتوں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ ہماری مقامی طور پر
تیار ہونے والی چیزیں بیرون ممالک کے لئے مہنگی ہو جاتی ہیں اس لئے ان کی ڈیمانڈ میں کمی آ جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کا پروگرام ختم ہوا تو گزشتہ حکومت کے آخری 18 مہینے میں غیر ملکی ذخائر 18 ارب ڈالر سے کم ہو کر 9 ارب ڈالر رہ گئے تھے، اس بحران کا
خوفناک پہلو یہ تھا کہ ہم تین ہفتہ سے زیادہ کی امپورٹ نہیں کر سکتے تھے۔ درآمدات اور برآمدات میں فرق 32 سے 33 ارب ڈالر ہو گیا تھا جو پاکستان کی تاریخ میں سب سے بڑا فرق ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دور حکومت میں برآمدات بڑھنے کی رفتار صفر سے بھی کم تھی،
کیا کوئی ایسا ملک ہے جس کی درآمدات صفر سے بھی کم ہوں اور اس نے پائیدار ترقی کی ہو۔ انہوں نے چین، ویتنام، بنگلہ دیش کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ دنیا کا ہر ملک اپنی برآمدات بڑھا کر ترقی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پٹرول، چائے، گھی، دالیں سب بیرون ملک سے درآمد ہوتی ہیں
اور اس کے لئے ڈالر کی ضرورت ہوتی ہے، اور ڈالر برآمدات بڑھانے سے ملیں گے، اگر کسی ملک کے پاس ڈالر ہی نہ ہوں تو وہ کیسے ترقی کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سابقہ حکومتوں نے برآمدات بڑھانے پر توجہ نہیں دی اور گزشتہ دور حکومت کے آخری پانچ سال اس نوعیت کے بدترین
سال تھے، ہم اتنے مقروض ہو گئے تھے کہ قرض واپس نہیں کر سکتے تھے۔ اس وجہ سے ہمیں مشکل فیصلے کرنے پڑے، ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا، کوئی حکومت آئی ایم ایف کے پاس خوشی سے نہیں جاتی۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دور حکومت کی پالیسیوں سے ڈالر مضبوط ہونا
شروع ہو چکا تھا، 127 روپے تک پہنچ چکا تھا، اگر اسی ڈالر کو 100 روپے پر رکھنے کی بجائے ہر سال اس میں تھوڑا اضافہ کرلیا جاتا تو ملک اچانک اس بحرانی صورتحال سے دوچار نہ ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے اس مسئلہ کو درست کرنے کے لئے پالیسیاں بنائیں۔ انہوں نے کہا
کہ حکومت کو مہنگائی ورثہ میں ملی، اس کو ٹھیک کرنے میں کچھ وقت لگے گا۔ انہوں نے کہا کہ مہنگائی میں اضافہ میں سب سے اہم عنصر حکومتی اخراجات ہوتے ہیں، حکومت نے اپنے اخراجات کم کرنے کا فیصلہ کیا، گزشتہ ڈیڑھ سال میں موجودہ حکومت نے اسٹیٹ بینک سے ایک روپیہ
قرض نہیں لیا، ڈیڑھ سال میں بجٹ کے علاوہ کوئی سپلیمنٹری گرانٹ نہیں دی گئی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ مشکل فیصلے وہی کرتے ہیں جنہیں ملک سے محبت ہوتی ہے۔ ہمیں سیاست کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حب الوطنی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان
سے زیادہ دکھ درد کسی کے دل میں نہیں، پاکستان کے عوام نے انہیں وزیراعظم منتخب کیا ہے، عوام نے ان پر ذمہ داری ڈالی ہے اور وہ اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے لئے عوام کے مفاد میں فیصلے کر رہے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ 72 سالوں سے کوئی پارٹی یا حکومت ٹیکس
اہداف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی، جب تک ہم صاحب حیثیت افراد سے ٹیکس وصول نہیں کریں گے اس وقت تک ہم مضبوط نہیں ہو سکتے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ کورونا وباءسے پہلے ٹیکس جمع کرنے کی شرح 17 فیصد تھی، ایک جانب ٹیکسوں میں اضافہ کیا گیا تو دوسری جانب
اخراجات کو کنٹرول کیا گیا۔ ملک میں استحکام کی فضاءقائم ہو رہی تھی۔ اسی اثناءمیں کورونا وباءآ گئی، اپوزیشن نے حکومت پر تنقید کی کہ جی ڈی پی کی نمو منفی آدھا فیصد ہے۔ انہوں نے کہا کہ دیگر ملکوں کی جی ڈی پی کا موازنہ کیا جائے تو امریکہ میں جی ڈی پی کی شرح نمو منفی
4.3 فیصد، سری لنکا کی منفی 4.6، ترکی کی منفی 5.5 فیصد، جرمنی کی منفی 6 فیصد، برطانیہ کی منفی 8.8 فیصد، جاپان کی منفی 5.3 فیصد، ایران کی منفی 5 فیصد، سعودی عرب کی منفی 5.4 فیصد، بھارت کی منفی 10.2 فیصد ہے جبکہ پاکستان کی منفی آدھا فیصد اور ہم پر
تنقید کی جا رہی ہے کہ ہماری پرفارمنس ٹھیک نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں انکم بڑھنے کی رفتار منفی 4.4 فیصد تھی۔ بھارت کی ہم سے 20 گنا جی ڈی پی گروتھ کم ہے۔ دنیا کی ہم سے تقریباً 9 گنا زیادہ کم تھی۔ ہم نے کورونا وائرس میں قدرے بہتر انداز میں معیشت کو بہتر کیا۔
ہم نے اپنے کاروباروں کی ہر ممکن مدد کی، حکومت نے صنعتوں کا تین مہینے کا بل اپنے پاس سے جمع کروایا، صنعتوں کے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگیوں کے لئے قرضے دیئے۔ بجلی کے بل موخر کئے، قرضوں کی ادائیگیاں موخر کیں، کسانوں سے فصلوں کی دو گنا خریداری کی تاکہ
وہ مالی طور پر مستحکم ہو سکیں، چھوٹے گھروں کے لئے ٹیکسوں میں 90 فیصد چھوٹ دی گئی، حکومت نے 36 ارب روپے مورگیج فائنانس کیلئے رکھے۔ کورونا کی پہلی لہر میں ہم نے کامیابی سے اپنے ملک کی معیشت کو بھی بچایا اور عوام کا بھی خیال رکھا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے
بجلی اور گیس صارفین کے علاوہ ٹیوب ویلوں پر بھی سبسڈی دی، برآمدات اور ٹیکس وصولیوں میں اضافہ کیا جبکہ اسٹاک مارکیٹ چار سال کی بلند ترین سطح پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو خوشحال بنانا ایک بڑا چیلنج ہے۔ حکومت نے کورونا وائرس کی صورتحال میں ڈیڑھ کروڑ خاندانوں
کو احساس پرگرام کے ذریعے مالی امداد فراہم کی۔ انہوں نے کہا کہ احساس پروگرام کا بجٹ دو گنا کر کے 192 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب موجودہ حکومت اقتدار میں آئی تو پبلک ڈیٹ 25 ارب تھا، اس میں اضافہ کی بنیادی وجہ ماضی کے قرضوں کی ادائیگیاں اور
ان پر سود کی ادائیگیاں تھیں۔ اخراجات اور آمدن میں ایک بڑے فرق کو پورا کرنے کے لئے مزید قرضے لئے گئے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ترقی وہی ہوتی ہے جس کا فائدہ عوام کو پہنچے اور ہم اسی ترقی کے لئے اپنی کوششیں بروئے کار لا رہے ہیں۔