اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)میں نے مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے کی طرف دیکھا تو اُس نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ ہمارا نواز شریف اور شہباز شریف سے کوئی براہ ِراست رابطہ نہیں، ہم نے یہاں اپنے کچھ بڑوں سے بات کی تو انہوں نے کہا نواز شریف کسی ایسے عمل کی حمایت نہیں کریں گے
جس سے سسٹم کو خطرہ ہو لہٰذا بجٹ منظور ہونے دیں بعد میں کچھ کریں گے۔سینئر کالم نگار حامد میر اپنے کالم ’’وہ چور ہی اچھے تھے‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔میں نے پوچھا آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟ تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی نے کہا کہ ہم کچھ ارکان قومی اسمبلی یہ سوچ رہے ہیں کہ راجہ ریاض اور خواجہ شیراز کی طرح حکومت پر کرپشن کے الزامات لگانے کے بجائے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیں کیونکہ اگر ہم تحریک انصاف میں بیٹھے رہے تو آئندہ کبھی سیاست نہیں کر سکیں گے۔میں نے پوچھا کیا کہہ کر استعفیٰ دیں گے؟ جواب آیا ہمارے ساتھ جنوبی پنجاب صوبے کا وعدہ کیا گیا وہ وعدہ پورا نہ ہوا ہمیں کہا گیا 90دن میں کرپشن ختم کریں گے، یہاں راتوں رات پٹرول مہنگا کر کے اربوں کی کرپشن کی جا رہی ہے، ہم کہیں گے آپ ڈاکو ہیں آپ سے اچھے تو وہ چور تھے جن پر کوئی چوری ثابت نہیں لیکن آپ کی ڈکیتی تو سب کو نظر آ رہی ہے۔ آپ سے مشورہ چاہئے کہ استعفیٰ دیں یا نہ دیں؟میں مسکرایا اور عرض کیا کہ فیصلہ آپ نے کرنا ہے، میں نے نہیں۔ میں صحافی ہوں جب فیصلہ ہو جائے تو مجھے بتا دیجئے گا، میں آپ کی آواز عوام تک پہنچا دوں گا کہ آپ کے خیال میں اس حکومت سے اچھی تو پچھلی حکومت تھی جسے عمران خان چور کہتے تھے۔ کالم کا دامن تنگ ہے۔ بات یہیں ختم کرتا ہوں۔ بجٹ منظور ہونے کے بعد عمران خان کا اصل امتحان شروع ہو گا۔