اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)چینی 2040سے پہلے نہیں لڑنا چاہتے تھے مگر امریکہ نے اس مقصد کے لئے مودی کو چنا، کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ اسی لئے کیا گیا تھا کہ پاکستان جنگ شروع کر دے مگر پاکستان کمال ہوشیاری سے یہ سارا مقدمہ اقوام عالم کے سامنے لے گیا۔۔۔سینئر کالم نگار مظہر برلاس اپنے کالم ’’ سرنڈرمودی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔ پھر اس نے ایل او سی پر بلاناغہ فائرنگ شروع کی
تاکہ پاکستان مشتعل ہو جائے۔ انہی حالات میں بھارت کا چین سے پنگا پڑ گیا، وادی گلوان میں بھارت کی سبکی ہوئی۔ بھارتی فوجی مارے گئے، کچھ زخمی ہوئے، کچھ پسپا ہوئے اور گرفتار بھی ہوئے۔ چین نے بھارت کو روند کر پیچھے دھکیل دیا، اس علاقے میں ایک چھوٹا سا قصبہ دولت بیگ ہے۔ جونہی بھارتی فوج نے دولت بیگ میں بیس کیمپ بنایا تو چینیوں کو سمجھ آ گئی کیونکہ دولت بیگ سے شاہراہ قراقرم صرف آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔بھارت سی پیک پر پانی پھیرنا چاہتا تھا مگر چینیوں نے بھارتی فوج کو دریائے گلوان کی ٹھٹھرتی ہوئی برف کی نذر کر دیا۔ جب چین نے 45کلومیٹر کا علاقہ قابو کر لیا تو بھارتی فوج بینرز لے کر کھڑی ہو گئی کہ معافی دے دو، فلیگ میٹنگ کی اپیلیں ہونے لگیں، بھارتی روزانہ سفید پرچم لہراتے، جواب نہ ملتا تو پریشانی میں اضافہ ہوتا۔پھر کسی کی سفارش پر 6جون کو چین اور بھارت کے مابین کور کمانڈرز کی سطح پر مذاکرات ہوئے۔ سات گھنٹوں کے بعد لیفٹیننٹ جنرل ہریندر سنگھ ہار کر آگیا، صرف ایک بات چینیوں نے مانی کہ موجودہ پوزیشن سے دونوں افواج ایک ایک کلومیٹر پیچھے ہٹ جائیں۔ فوجیں ہٹ گئیں تو نئی دہلی میں دو روز تک اجلاس ہوتا رہا کہ لوگوں کو کیا بتائیں؟ پھر سیاچن سمیت لداخ کے علاقوں میں راشن اور دوسری اشیاء کی ڈمپنگ صرف جون، جولائی اور اگست میں ہو سکتی ہے لہٰذا ان علاقوں کا کنٹرول حاصل کیا جائے اور ایک کلومیٹر علاقہ جو خالی ہوا ہے،
وہاں فاتحانہ انداز میں وڈیو بنا کر جاری کر دی جائے، بس یہی وہ غلطی تھی جس کا خمیازہ بھارت کو بھگتنا پڑا۔ یہاں کرنل سنتوش بابو اپنے ڈھائی سو فوجیوں سمیت چینی فوج کے چنگیزی لشکر سے ہار گیا۔ بھارتی فوجیوں کے ورثا پوچھ رہے ہیں، دفاعی ماہرین تنقید کر رہے ہیں، اپوزیشن بھی سوال کر رہی ہے، راہول گاندھی تو نریندر مودی کو ’’سرنڈر مودی‘‘ کہہ رہے ہیں۔ اگرچہ بھارت سرکار نے
فوج کو فوری طور پر پانچ ارب روپیہ دیا ہے مگر دونوں لڑاکا رجمنٹس ناراض ہیں۔سکھ رجمنٹ کے علاوہ گورکھا رجمنٹ بھی ناراض ہے۔ مشکل یہ ہے کہ بھارتی فوج کے بیس فیصد افسران سکھ ہیں اور بھارتی فوج میں نیپال سے تعلق رکھنے والے 32ہزار گورکھے ہیں۔ بھارت کو اپنا ملک ٹوٹتا ہوا دکھائی دے رہا ہے مگر بقول اشوک سوائن ’’مودی نے شادی، پروفیشن اور ڈگری پر جھوٹ بولا، آپ کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ اب وہ سچ بولے گا‘‘۔