اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پٹرول کی قیمت کم ہوئی تووزارت پٹرولیم نےدرآمد روک دی اپریل میں تیل درآمد روکنےسےمتعلق لکھاگیاوزارت پٹرولیم کاخط منظرعام پرآگیا ،وزارت پٹرولیم کےخط سےوفاقی کابینہ لاعلم نکلی، ترجمان اوگرا کہتے ہیں قانون کے مطابق ہر کمپنی 21دن کا ذخیرہ رکھنے کی پابند ہے،شیل ،حیسکول اور اٹک ریفائنری نے مصنوعی قلت پیداکی جس کا ثبوت ہے۔
ترجمان اوگرا کے مطابق6 آئل کمپنیوں کومصنوعی بحران پرشوکاز نوٹس جاری کردیا،دوسری جانب ملک میں پٹرولیم مصنوعات کے بحران پر وزیراعظم عمران خان سمیت متعدد وزراء نے وفاقی وزیر برائے توانائی عمر ایوب اور معاون خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر کو آڑے ہاتھوں لیا تو عمر ایوب کابینہ اراکین کے جوابات دیتے ہوئے جذباتی ہوگئے اور کہاکہ جتنا کام اپنی وزارت میں میں نے کیا ہے اتنا کسی نے نہیں کیا اس کے باوجود ہر بار بعض وزراء مجھ پر چڑھائی کردیتے ہیں جو کہ ناانصافی ہے۔ میںپارلیمنٹ میں تمام سوالوں کے جواب دے چکا ہوں اس پر بابر اعوان نے کہا کہ پارلیمنٹ میں جو بیان دیا اس میں ایکشن مسنگ تھا ۔ ذرائع کے مطابق کابینہ اجلاس کے دوران ایجنڈا آئٹم نمٹانے سے قبل وزیراعظم عمران خان نے خود ملک میں پٹرولیم مصنوعات کے بحران کا معاملہ اٹھایا اور کہا کہ ایجنڈے کو بعد میں دیکھتے ہیں پہلے یہ بتائیں کہ ملک میں پٹرول کا بحران کس نے پیدا کیا ایشیا میں سب سے سستا پٹرول ہم نے کیا پھر غائب کس نے کردیا ؟ اور یہ بحران کیونکر پیدا ہوا ؟ کابینہ اراکین نے اس موقع پر چیئرمین اوگرا کو اجلاس میں طلب کرنے کا مطالبہ کیا جس پر چیئرمین اوگرا اجلاس میں پہنچ گئے ۔
انہیں مخاطب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اگر پٹرول بحران کے ذمہ دار آپ ہوئے تو یاد رکھیئے گا کوئی رعایت نہیں ملے گی کیونکہ سستا پٹرول ہونے کے باوجود لوگوں کو نہ ملنا حکومت کی بدنامی کا باعث بن رہا ہے ،شاہ محمود قریشی ، اسد عمر، بابر اعوان نے بھی ندیم بابر اور عمر ایوب سے سخت سوالات کئے اور کہا کہ بتایا جائے کہ آخر یہ قلت کیوں پیدا ہوئی ؟ اتنے دن ہوگئے وزارت نے کیا ایکشن لیا ؟ اسد عمر نے کہا کہ ہمیں ٹرک کی بتی کے پیچھے نہ لگایا جائے ، ندیم بابر نے کہا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردوبدل کا اوگرا کا فارمولا تبدیل کیا جائے ۔ کابینہ نے وزارت پٹرولیم کو چھاپہ مار ٹیمیں تشکیل دینے کی ہدایت کردی جو کہ تیل ڈپو کا معائنہ کرکے پٹرول ذخیرہ کرنے کا جائزہ لے گی یہ ٹیمیں اوگرا ، ایف آئی اے اور دیگر اداروں کے نمائندوں پر مشتمل ہونگیں ۔