اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار جاوید چودھری اپنے کالم ’’تھینک یو کرونا‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔”خرگوش والے انکل آپ کیسے ہیں؟“ گلی میں آواز گونجی‘میں نے اوپر دیکھا‘ بالکونی میں چار پانچ سال کی خوب صورت بچی کھڑی تھی‘ میں نے قہقہہ لگایااور ہاتھ ہلانے لگا۔ہم اپنی گلی میں خرگوشوں والے مشہور ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ ہمارے گھر میں دو اڑھائی سو خرگوش ہیں‘ یہ دن رات گلی
میں پھرتے رہتے ہیں اور تین چار گلیوں کے بچے ان کی ”زیارت“ کے لیے روز ہمارے گھر کا چکر لگاتے ہیں‘ ہم نے دو سال قبل گلی کے بچوں کے لیے خرگوش منگوائے تھے۔خرگوشوں نے بچے دینا شروع کیے اور ہمارا گھر ”دارالخرگوش“ بن گیا‘بچوں کو پتا چلا تو یہ خرگوشوں سے ملاقات کے لیے آنے لگے‘ بچے سکول جانے سے پہلے اور سکول سے واپسی پر ہمارے گھر کا چکر ضرورلگاتے ہیں‘ یہ اپنے اپنے خرگوش کا تعین کر لیتے ہیں اور ان کو چارہ اور گاجریں کھلاتے رہتے ہیں‘ بچوں کا یہ معمول کرونا میں بھی جاری ہے‘ یہ اپنے والدین کے ساتھ آتے ہیں‘ خرگوشوں کے پیچھے بھاگتے ہیں اور گھر واپس چلے جاتے ہیں‘یہ ہماری گلی کی واحد ایکٹویٹی تھی‘ شام آٹھ بجے کے بعد ایک سرے سے دوسرے کونے تک گلی میں سناٹا ہو جاتا تھا لیکن کرونا کے بعد گلی میں آہستہ آہستہ تبدیلی آنے لگی‘ میں مارچ کے مہینے تک جب گھر واپس آتا تھا تو پوری گلی میں خاموشی ہوتی تھی‘ میں چھٹی کے دنوں میں بھی واک کے لیے نکلتا تھا تو گلی میں کوئی بندہ بشر نہیں ہوتا تھا‘ گیٹ بند ہوتے تھے‘ بالکونیاں سنسان ہوتی تھیں اور کمروں کی لائیٹس آف ہوتی تھیں لیکن جوں ہی کرونا آیا‘ شہر لاک ڈاؤن ہوا اور لوگ گھروں تک محدود ہونے پر مجبور ہوئے تو ہماری گلی آباد ہونا شروع ہو گئی‘ پہلے لائیٹس آن ہونے لگیں‘ پھر بالکونیاں آباد ہو گئیں اور اب ہر گھر سے قہقہوں کی آوازیں آتی ہیں‘ میں گلی میں نکلتا ہوں تو بچے گلی میں دوڑ رہے ہوتے ہیں یا پھر بالکونی میں کھڑے ہو کر نیچے سے گزرتے لوگوں پر
آوازیں کستے ہیں اور پھر دل کھول کر قہقہے لگاتے ہیں۔کرونا نہ ہوتا تو مجھے شاید کانوں کان خبر نہ ہوتی کہ ہماری گلی میں درجنوں بچے رہتے ہیں اور ہر گھر میں لوگ باقاعدہ آباد ہیں اور یہ ہنستے‘ بولتے اور کھیلتے بھی ہیں چناں چہ میں جب بھی کسی گھر کے سامنے سے گزرتے ہوئے قہقہے سنتا ہوں‘ لوگوں کو ہنستے‘ مسکراتے‘ باتیں کرتے دیکھتا ہوں‘ ایک دوسرے کو جوک سناتے اور سن کر ہاہاہا کرتے
دیکھتا ہوں تو میراد وران خون تیز ہو جاتا ہے‘ مجھے اپنے کانوں کی نسوں میں خون کی آوازیں آنے لگتی ہیں اور میں سوچنے لگتا ہوں یہ زندگی پہلے کہاں تھی اور ہم اس سے پہلے قبرستان جیسی زندگی کیوں گزار رہے تھے اور پھر میں ایک لمبا سانس لیتا ہوں‘آسمان کی طرف دیکھتا ہوں اور زور سے کہتا ہوں تھینک یو کرونا۔آپ اگر میرے ہم عمر ہیں تو آپ کو یاد ہو گا ہمارے بچپن میں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے تھے‘
پورے محلے میں ایک ٹیلی ویژن ہوتا تھا اور سارا محلہ فرش پر بیٹھ کر وارث یا ففٹی ففٹی دیکھتا تھا‘ فون بھی ایک ہی ہوتا تھا‘ محلے کی ساری کالز اسی پر آتی تھیں اور ہم بچے ہر کال پر ”ہولڈ کریں“ کہہ کر چاچا اور چاچی کی تلاش میں دوڑ پڑتے تھے اور فون کا سن کر چاچی دوپٹہ اور چاچا دھوتی سنبھالتا ہوا فون کی طرف دوڑ لگا دیتا تھا۔بڑی عید پر پوری گلی میں ایک گائے ذبح ہوتی تھی اورسارا محلہ قصائی کے
ساتھ بیٹھ کر تخمینہ لگاتا رہتا تھا گوشت کتنا نکلے گا‘ لوگ گلی کے نلکوں کا پانی پیتے تھے‘ گھروں میں ایک سالن پکتا تھا‘ پورا گھر بھی کھاتا تھا اور ہمسائے بھی اس سے پیٹ بھر لیتے تھے‘سالن مانگنا روایت تھی‘ کوئی بھی کسی سے بھی سالن مانگ لیتا تھا اور وہ خوشی خوشی اسے دے دیتا تھا‘ لوگ ایک دوسرے سے کپڑے‘ جوتے اور سائیکل بھی مانگ لیتے تھے اور عورتیں زیورات بھی ادھار لے کر پہن لیتی تھیں
اور ایک دوسرے سے برف بھی مانگی جاتی تھی۔برتن بھی اور پنکھے بھی لیکن پھر زمانہ بدلا اور ہر گھر میں اپنا فون اور اپنا ٹی وی آ گیا‘ لوگوں نے اپنا اپنا سائیکل اور موٹر سائیکل بھی لے لیا‘ سالن بھی زیادہ پکنے لگا اور مانگ کر کھانا بھی جرم بن گیا‘ لوگ پھر اپنے اپنے گھروں تک محدود ہو گئے‘ وہ زمانہ بھی غنیمت تھا‘ لوگ اپنے گھروں میں ہی سہی لیکن ایک دوسرے سے رابطے میں تو رہتے تھے‘
یہ مل کر ٹی وی دیکھ لیتے تھے‘ یہ ناشتے‘ لنچ یا ڈنر کے لیے میز پر آ جاتے تھے یا پھر جمعہ یا اتوار کو اکٹھے ہو جاتے تھے۔یہ سلسلہ بھی اگرچلتا رہتا تو بھی معاشرہ‘ معاشرہ اور گھر‘ گھر بنے رہتے مگر ہم اس سے بھی چند قدم آگے نکل گئے‘ ہم اپنے اپنے کمروں تک محدود ہو گئے‘ کمروں میں ٹی وی لگ گئے‘ فون موبائل فون بن گیا اور کھانا بھی میز سے ٹرے اور پلیٹ سے ڈبے میں شفٹ ہو گیا چناں چہ ہماری
زندگی کمروں تک محدود ہو گئی‘ ہمیں پہلے ساتھ والے گھر کا علم نہیں ہوتا تھا اور پھر ہم ساتھ کے کمرے سے بھی الگ ہو گئے اور ہم عیدیں بھی سو کر گزارنے لگے‘ یہ لائف سٹائل فطرت کے خلاف تھا چناں چہ قدرت ایکٹو ہوئی‘ کرونا آیا اور ہم ایک بار پھر زندگی کی طرف لوٹ آئے۔ہم کمروں سے باہر آ گئے‘ ہم نے بالکونیوں میں بیٹھ کر ہمسایوں کو بھی دیکھنا شروع کر دیا‘ ہمیں معلوم ہو گیا کس گھر میں کون کون سا
بزرگ رہتا ہے اور کس گھر میں کس عمر کے کتنے بچے موجود ہیں‘ ہم نے خاندان کے ساتھ گپ لگانا اور قہقہے داغنا بھی شروع کر دیا‘ ہم زندگی کی طرف واپس آ گئے۔آپ اگر میرے ہم عمر ہیں تو آپ نے اپنے بزرگوں کو دوپہر کے وقت گھر آتے‘ مل کر کھانا کھاتے‘ قیلولہ کرتے اور شام کو ڈیوڑھی میں بیٹھ کر دوستوں کے ساتھ گپ لگاتے بھی دیکھا ہو گا۔آپ نے پورے محلے میں کھانوں کی خوشبو اڑتے اور ہر
چھت سے دھوئیں کی لکیر نکلتے بھی دیکھی ہو گی اور آپ نے لوگوں کو لوگوں کے دکھوں میں آنسوؤں اور تسلیوں کا حصہ ڈالتے اور دوسروں کے سکھوں کو بتاشوں کی طرح تقسیم کرتے بھی دیکھا ہو گا اور آپ نے پھر لوگوں کو بدلتے‘ سمٹتے اور دور دور ہوتے بھی دیکھا ہو گا‘ میرا تعلق اس ایج گروپ اور معاشرے کے اس طبقے سے ہے جس نے زندگی کے یہ تینوں شیڈ دیکھے ہیں‘ میں نے فی محلہ ایک ٹی وی
اور ایک ٹیلی فون کا دور بھی دیکھا۔میں نے ہر گھر میں فون اور ٹی وی آتے بھی دیکھا اور میں نے آخر میں لوگوں کو کمروں میں سمٹتے اور غرق ہوتے بھی دیکھا اور میں ان خوش نصیب لوگوں میں بھی شامل ہوں جنہیں اللہ تعالیٰ نے وقت کو پلٹتے اور واپس آتے بھی دیکھا لہٰذا کرونا ہمارا بہت بڑا محسن ہے بس اس کا ایک قصور ہے‘ یہ اگر ایک بار موبائل فون بھی بند کرا دیتا تو ہم مزید بہتر زندگی گزار سکتے تھے
لیکن اس کے باوجود اتنا بھی غنیمت ہے کہ ہمیں اس وبا نے ایک بار پھر بتا دیا زندگی تھوڑے سے وسائل کے ساتھ بھی گزاری جا سکتی ہے اور یہ زیادہ وسائل کی زندگی سے بہتر ہوتی ہے۔اس نے ہمیں بتا دیا اندھا دھند دوڑ کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا‘ آپ کے اکاؤنٹس میں کیا پڑا ہے‘ آپ کتنی زمین اور جائیداد کے مالک ہیں‘ آپ کے پاس کس ملک کا پاسپورٹ ہے اور آپ کی پہنچ کہاں کہاں تک ہے یہ سب بے معنی اور بے کار ہے‘
زندگی وہ ہے جو آپ آج گزار رہے ہیں‘ کھانا وہ ہے جو آپ کھا چکے ہیں‘ پانی وہ ہے جو آپ نے پی لیا‘ جائیداد وہ ہے جس میں آپ رہ رہے ہیں اور رقم وہ ہے جو آپ کی جیب‘ آپ کے ہاتھ میں ہے‘ قدرت نے ہمیں یہ بھی بتا دیا دنیا میں صحت سے بڑی کوئی نعمت نہیں ہوتی اور صحت کے معاملے میں ہم سب اکیلے ہیں۔مجھے چند دن قبل کرونا کی شکار ایک بچی کو دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ ماں باپ شیشے کی ایک سائیڈ پر کھڑے تھے
اور بچی دوسری سائیڈ پر تھی‘ وہ چیخ رہی تھی‘ وہ سانس بحال کرنے کے لیے اپنی چھاتی پیٹ رہی تھی‘ ڈاکٹر اسے آکسیجن لگاتے تھے لیکن وہ ماسک اتار کر اپنی ماں کو بلاتی تھی لیکن ماں اور باپ دونوں کرونا کے خوف سے بچی کے قریب نہیں جا رہے تھے‘ وہ بچی کو شیشے کی دوسری طرف سے تسلی دے رہے تھے‘ میں نے کانوں کو ہاتھ لگایا اور اللہ سے معافی مانگی۔ہماری حقیقت تو یہ ہے‘ ہم وبا کے
خوف سے جنازے تک نہیں پڑھ رہے اور ان لوگوں کے قریب بھی نہیں جارہے جن کے بغیر ہماری زندگی‘ زندگی نہیں ہوتی تھی‘ کرونا ہمیں یہ بھی بتا گیا انسان کی زندگی چوہوں کی دوڑ سے زیادہ کچھ نہیں‘ ہم پوری زندگی پنیر کا اپنے مقدر سے بڑا ٹکڑا تلاش کرتے رہتے ہیں‘ ہم تھک کر مر جاتے ہیں اور ہمارا پنیر کیڑے اور کوے کھا جاتے ہیں چناں چہ میں جب لوگوں کو ہنستے ہوئے دیکھتا ہوں‘ بالکونی میں کھڑے ہو
کر گلی سے گزرتے لوگوں کو دیکھتا ہوں تو میرے اندر سے تھینک کرونا کی آواز نکل آتی ہےلیکن پھرمیں سوچتا ہوں جون میں جب کرونا ختم ہو جائے گا تو پھر کیا ہو گا؟ کیا ہم واپس اپنی مصنوعی زندگی کی طرف لوٹ جائیں گے؟اس زندگی کی طرف جس میں دوڑ اور حرص کے سوا کچھ نہیں تھا‘ یہ سوچ کر مجھے کپکپی آ جاتی ہے اور میں ڈر جاتا ہوں۔میں نے اوپر بچی کی طرف دیکھا‘ دونوں کانوں پر ہاتھ رکھ کر خرگوش جیسی شکل بنائی اور منہ سے پخ پخ کی آوازیں نکالنے لگا‘ بچی نے زوردار قہقہہ لگایا اور پوری گلی بچی کے قہقہے سے چمک اٹھی۔