جمعہ‬‮ ، 22 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

’’ ضروری نہیں وہ ہمارے جنازے کو پانچ منٹ بھی دیں‘‘ نعیم الحق نے جس منزل کے لیے پوری زندگی صرف کر دی وہ جب ملی تو ۔۔۔ نعیم الحق چلے گئے لیکن یہ جاتے جاتے اپنے ساتھیوں کو کیا چیز بتا گئے ؟تہلکہ خیز انکشاف

datetime 21  فروری‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار جاوید چودھری اپنے کالم ’’مٹی کی مٹھی‘‘ میں لکھتےہیں کہ۔۔۔۔نعیم الحق نے پوچھا ”ہم میڈیا ٹیم بنا رہے ہیں‘ آپ مجھے کیا مشورہ دیں گے“ میں نے ہنس کر جواب دیا ”آپ اپنے لوگوں کو عاجزی کا درس دیں‘ یہ جس دن میڈیا سے بدتمیزی کریں گے اس دن پارٹی کا زوال شروع ہوجائے گا“ نعیم الحق نے گرم جوشی کے ساتھ ہاتھ ملایا اور پھر ان کے ساتھ میرا چھوٹا سا تعلق بن گیا‘

میں یہ بھی اعتراف کرتا ہوں یہ تعلق خالص پیشہ وارانہ تھا‘ میری ان کے ساتھ تمام ملاقاتیں سٹوڈیو میں ہوئیں یا پھر بنی گالا میں عمران خان کے انٹرویوز کے دوران‘ میری کمپنی نے ایک بار ”اینگرو“ کے ساتھ ایک چھوٹا سا پراجیکٹ کیا تھا‘ اس پراجیکٹ کے دوران نعیم الحق کے بیٹے سے بھی ملاقات ہوئی‘ پتا چلا یہ اینگرو میں کام کرتے ہیں۔دو ہزار چودہ کے دھرنوں میں صورت حال بدل گئی‘ صاف نظر آنے لگا عمران خان اگلے وزیراعظم ہوں گے چناں چہ ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف میں نئے پنچھی بھی آتے رہے اور پرانے لوگوں کے دماغ بھی آسمان کو چھوتے چلے گئے‘ ہم نے اس دوران دیکھا ہمارے مہمان پہلے دوسرے درجے سے براہ راست چھٹے اور ساتویں پر پہنچ جاتے تھے‘ یہ سیدھا فرما دیتے تھے ہم ”ون آن ون“ آئیں گے اور اینکر کو بتا دیں وہ ہمیں درمیان میں نہیں ٹوکے گا۔یہ وہ جواب تھا جس سے میڈیا انڈسٹری کے بزرگوں کو 2018ءکے الیکشن سے دو سال پہلے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا انجام نظر آ گیا اور ہمارے سینئر کہنے لگے ”ان لوگوں کو ان کا غرور‘ ان کی ایروگینس مار دے گی“ میں بھاری دل سے لکھ رہا ہوں نعیم الحق کے اندر عاجزی بھی تھی اور وہ گفتگو بھی تہذیب کے ساتھ کرتے تھے مگر وہ اپنے ساتھیوں سے مختلف نہیں تھے‘ وہ بڑے بڑے شوز کے اینکرز کو بھی براہ راست کہہ دیتے تھے ”بس بھائی صاحب آپ مجھے پانچ منٹ کے لیے

ٹیلی فون پر لے لیجیے گا“۔لہٰذا آپ 2017ءسے 2020ءان کے انتقال تک دیکھ لیجیے‘ یہ آپ کو میڈیا پر بہت کم نظر آئیں گے‘ یہ بہرحال ان کا ذاتی فعل تھا‘ میڈیا میں آنا یا نہ آنا ہر انسان کا ذاتی فیصلہ ہوتا ہے اور کوئی کسی کو مجبور نہیں کر سکتا تاہم ایک دن انہوں نے مجھ سے پوچھا ”آپ مجھے کس درجے پر دیکھ رہے ہیں“ میں نے قہقہہ لگا کر جواب دیا ”آٹھویں درجے پر‘ آپ صدر اور وزیراعظم سے بھی آگے نکل گئے ہیں“

وہ اچھے انسان تھے‘ شاید اسی لیے ان کی بیماری‘ ان کے انتقال اور آخر میں ان کے جنازے نے چند سوال اٹھا دیے۔اللہ تعالیٰ نے ہم انسانوں کے بارے میں کیا خوب فرما دیا تھا ” قسم ہے زمانے کی‘ انسان خسارے میں ہے“ ہم سب بے شک خسارے کے سوداگر ہیں اور آپ نعیم الحق کے خسارے کا اندازہ کیجیے‘ مرحوم نے اپنی پوری زندگی عمران خان کے لیے وقف کر دی‘ یہ بچوں کو چھوڑ کر کراچی سے

اسلام آباد شفٹ ہو گئے‘ سارا دن اپنے کپتان کی خدمت کرتے اور رات گئے تھک ہار کر کرائے کے مکان میں جا گرتے‘ یہ عمران خان کے مفت کے سپاہی تھے لیکن آخر میں کیا ہوا؟ ۔وزیراعظم عمران خان اور صدر عارف علوی نعیم الحق کا جنازہ تک پڑھنے کے لیے کراچی نہیں گئے‘ کیا کراچی کسی دوسرے ملک یا کسی دوسرے سیارے میں تھا؟ ایک شخص جس نے آپ کو پوری زندگی دے دی تھی‘

آپ اس کے جنازے کو کندھا دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہوئے‘کیوں؟ کیا دنیا میں نعیم الحق کے جنازے سے بھی کوئی چیز اہم تھی؟ چناں چہ یہ ایک حقیقت ساری حقیقتیں آشکار کرنے کے لیے کافی ہے‘ ہم جن کو پوری زندگی دیتے ہیں ضروری نہیں وہ ہمارے جنازے کو پانچ منٹ بھی دیں لہٰذا میری درخواست ہے آپ روز سونے سے پہلے اور جاگنے کے فوراً بعدیہ حقیقت ضرور یاد کر لیں۔دوسرا نعیم الحق نے جس عہدے‘

جس منزل کے لیے پوری زندگی صرف کر دی وہ جب ملی تو وہ اسے انجوائے نہیں کر سکے‘ وہ وزیراعظم آفس سے سیدھے ہسپتال گئے اور پھر وہاں سے سیدھا وہاں چلے گئے جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا‘آپ صبح اور شام خود کو یہ بھی یاد کرائیں ہو سکتا ہے ہمیں منزل کی خوشیاں دیکھنا نصیب نہ ہوں‘ تیسری بات ہم زندگی میں جس رتبے‘ جس مقام کی وجہ سے انسانوں کو انسان نہیں سمجھتے وہ رتبہ‘

وہ مقام جاتے دیر نہیں لگتی‘کل کی بات ہے جنرل پرویز مشرف کا غرور آسمان کو چھو رہا تھا پھر ہم جس طرف دیکھتے تھے صرف شریف ہی شریف تھے لیکن یہ لوگ آج کہاں ہیں؟ ہم پانی کا بلبلہ ہیں۔یہ بلبلہ کس وقت پھٹ جائے ہم نہیں جانتے اور آخری بات ہم پوری دنیا کو ہرا سکتے ہیں‘ ہم دنیا کی بلند ترین چوٹی پر پرچم بھی لہرا سکتے ہیں اور ہم زمین کے دائرے سے نکل کر کائنات کے آخری سرے تک بھی پہنچ سکتے ہیں لیکن ہمارے جسم کے اندر کیا ہو رہا ہے؟ ہم نہیں جانتے‘ ہم روز 67 مرتبہ موت کے قریب سے گزرتے ہیں‘

ہم ساڑھے چار ہزار بیماریوں کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں‘ ان میں سے کون سی بیماری کس وقت ایکٹو ہو جائے یا پھر موت کے 67 بہانوں میں سے کون سا بہانہ کس وقت کارگر ہو جائے ہم نہیں جانتے ۔نعیم الحق اس حقیقت کی تازہ ترین مثال ہیں‘ یہ چلے گئے لیکن یہ جاتے جاتے اپنے ساتھیوں کو بتا گئے عہدوں اور کام یابیوں پر تکبر نہ کرو‘ دنیا کو مستقل نہ سمجھو‘ خود کو طاقت ور اور ناگزیر خیال نہ کرو اور اپنے دوستوں کو آخری کندھا ضرور دو‘ یہ عادت تمہارے اعتبار میں بھی اضافہ کرے گی اور تمہیں اس دنیا کی اصل حقیقت بھی یاد دلائے گی۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…