کوئٹہ(آن لائن)بلوچستان نیشنل پارٹی کے سر براہ ورکن قومی اسمبلی سردار اختر جان مینگل نے چھ نکات پر عملدرآمد نہ ہونے پر وزیر اعظم عمران خان کو آٹھ اگست 2019کی ڈیڈ لائن دیدی، کہتے ہیں صدارتی نظام میں ملک کے حالات بد ترین خراب ہوئے تھے آزاد بینچوں سے اپوزیشن کے بینچوں پر بیٹھنے میں دیر نہیں لگتی بلوچستان کے معاملے پر وزیر اعظم کے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں ہمارے پالیسی میکرز خوردبین سے زیادہ دوربین کاسہارا لیتے ہیں ان کا ویژن اپنے مفادات حاصل کرنے کیلئے ہوتے ہیں
بلوچستان کا 50ارب ترقیاتی پی ایس ڈی پی لیپس ہورہا ہے نا ہی روزگار ہے بلکہ ترقیاتی کام ٹھپ کر رہ گئے ہیں اپوزیشن ارکان اسمبلی اجلاس میں چیخ وپکار کررہی ہے کوئی سننے والا نہیں اگر اپوزیشن قائد ایوان سے مطمئن نہیں ہے یہ ان کاجمہوری حق ہے کہ ان کے خلاف عدم اعتماد لاسکتے ہیں ماضی کی حکمرانوں نے بلوچستان سے ہمیشہ معافیاں مانگی ہیں ان خیالات کااظہارانہوں نے نجی ٹی وی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جس امید کے ساتھ بلوچستان کے عوام نے جو مینڈیٹ دیا تھا یہاں پر آکر بلوچستان اور پاکستان کے ایشوز پر کچھ سمجھیں گے کچھ سمجھانے کی کوشش کرینگے لیکن یہاں آکر پتہ چلا سمجھنے کے بجائے یہاں کشتی کا مقام تھا تو مایوسی ہوئی اس طرح کاماحول تھا جب وزیر اعظم خطاب کررہا تھا میں حالانکہ اتنا دور بھی نہیں تھا مجھے ان کی تقریر سنائی نہیں دے رہا تھا پہلے دن اپوزشن کے احتجاج پر میں نے اپیل کیا حکومت نے پہلے دن ایوان میں اینٹ تھیڑی رکھی کیا صدارتی نظام تبدیل ہونے سے کیا ملک کا نظام بہتر ہونگے صدارتی نظام میں ملک کے حالات بد ترین خراب ہوئے تھے ان کا ذمہ دار بھی صدارتی نظام ہے کیوں نہ ہم 10سال پہلے کی تاریخ میں جائے کوئی بہتری نہیں آئی یہ مسئلے کاحل نہیں ہے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ دو معاہدے ہوئے تھے ایک پرائم منسٹر اور اسپیکر کے انتخابات دوسراپریذڈنٹ الیکشن کا تھا پہلے معاہدے میں چھ نکات تھے اور دوسررے معاہدے میں نو نکات پیش کئے تھے کچھ نکات ایسے تھے حکومت کے دست راست میں تھے کچھ نکات ایسے تھے جو تمام کے تمام حکومت کے کنٹرول میں نہیں تھے
لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان تما م معاہدات کو عملی جامعہ پہنانے کیلئے ہم نے کہا تھا کہ ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں حکومتی ارکان بھی شامل ہو اور ہمارے پارٹی کے ارکان بھی شامل ہوں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے وہ کمیٹی ابھی تک نہیں بنی ہم نے روز اول سے اپنے چار نام دئے ہوئے تھے افسوس کی بات ہے کابینہ بن جاتی ہے مگر کمیٹی نہیں بنتی ہے بلوچستان میں بے روزگاری،پانی اور گوادر میں ڈیمز کا مسئلہ ہے یہ تو حکومتی کرسکتی تھی ہم اپنے زبان پر قائم ہیں حکومت کی سپورٹ کررہے ہیں آٹھ مہینے سے بال حکومت اور پی ٹی آئی کی کوٹ میں ہے
اگر اس بال کو وہ کرکٹ کی بال بناتے ہیں ان کی مرضی ہے یا اس کو فٹ بال کی طرح کک مارتے ہیں ان کی مرضی ہے کیونکہ ہماری ایگزیکٹیوں کمیٹی کے اجلاس کی تحفظات وزیراعظم کو پہنچا دیا تھا اور دو ٹوک الفاظ میں ہم نے کہا ہے کہ ایک سال کا عرصہ دیا ہے سات مہینے گزر گئے اور مزید پانچ مہینے رہ گئے ہیں وہ پانچ مہینے سے چار مہینے پر بات آگئی ہے ہم یہ نہیں کہتے 100فیصد مسئلے حل ہونگے لیکن کچھ پیشرفت ہونی چاہیے 8اگست 2019کو ایگزیکٹیو کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کرینگے میں نے محسوس کیا ہے کہ شاید ہم اور ٹائم نہ دے سکیں بلوچستان کا مسئلہ وزارتوں سے حل نہیں ہوگا
بلوچستان کے دیرینہ مسائل کسی ایک شخص کو خوش کرنے سے حل نہیں ہوگا یہ سوچ وفاق کو تبدیل کرناہوگا اور بلوچستان کے تحفظات پر غور کرنا ہوگا ہمارے نکات حکومت کے بس میں نہیں ہے تو کم از کم کہہ تو سکتے ہیں کہ ہماری بس سے باہرہے موجودہ حکومت ہمارے بے ساکیوں پر کھڑی ہے یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ کن کے بے ساکیوں پر آئیں ہیں ہم نے جو معاہدہ کئے ہیں بلوچستان کو سامنے رکھ کر کئے ہیں آزاد بینچوں سے اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے میں دیر نہیں لگتی افغان مہاجرین کی پالیسی کااعلان وزیر اعظم نے کیا تھا مگر کچھ بھی نہیں ہوا اتنا سہولت مقامی افراد کو نہیں جتنا افغان مہاجرین کو ملتا ہے بلوچستان کے معاملے میں وزیر اعظم عمران خان کے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں ہمارے پالیسی میکرز خورد بین سے زیادہ دوربین کا سہارا لیتے ہیں
ان کا ویژن ہے کہ کونسے مفادات حاصل کئے جائے پہلے یہ سمجھا جائے ریاست کا وفادار کس کو کہتے ہیں پاکستان کا جھنڈا ہاتھ میں لیکر کرائم وبدکاریاں کروں میں وہ وفادار ہوں ہم نے اپنے حقوق کی بات کی ہے سی پیک سے پہلے جومنصوبے بنائے بلوچستان اور گوادر کو کیافائدہ ملا بغیر گوادر اور بلوچستان سی پیک نا مکمل ہے بلوچستان کے 50ارب ترقیاتی پی ایس ڈی پی لیپس ہورہا ہے روزگار نہیں ہے ترقیاتی کام ٹھپ کر رہ گئے ہیں اپوزیشن ارکان اسمبلی میں چیخ وپکار کررہی ہے کوئی سننے والا نہیں عوام اور اراکین اسمبلی اگر ایوان قاعد سے مطمئن نہیں تو عدم اعتماد لاسکتے ہیں میرے دور میں نو مولود تھا پاکستان میں جو بھی حکومت بنی ہے اس میں اسٹیلشمنٹ کا ہاتھ ہے ان سے ہمیں نا امیدی کی امید ہے اپوزشن میں بھی اپنے نکات کو رکھیں گے میرا مشورہ ہے وزیر اعظم عمران خان کو حکومتیں اس طرح نہیں چلتی کرکٹ کا میدان اور حکومتوں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے حکومتیں چلانے کیلئے دل بڑا رکھنا ہوگا۔