کراچی(این این آئی) پاکستان اکانومی واچ کے صدر ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے کہا ہے 2018 کے مقابلہ میں 2019 میں پاکستان کی شرح نمو نصف ہو کر 2.9 فیصد تک گر جائے گی جبکہ 2020 اور2021 میں اس میں مزید کمی آئے گی۔ان تین سالوں میں بھارت اور بنگلہ دیش کی شرح نمو پاکستان سے دگنی سے زیادہ ہو گی جبکہ نیپال بھوٹان اورمالدیپ بھی ہم سے بہت آگے نکل جائیں گے۔
اس 2021 تک شرح سود اور بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافہ روپے کی قدر میں کمی اور ڈالر پر سٹے بازی جاری رہے گی جبکہ کاروباری لاگت بڑھنے سے بہت سے کاروبار بند اور برامدات متاثر ہونگی جس سے بے روزگاری اور محاصل میں کمی سمیت متعدد مسائل جنم لینگے۔ ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ آئی ایم ایف، عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان کی اقتصادی صورتحال کے بارے میں تشویش ظاہر کر دی ہے اور حکومت کے اعداد و شمار میں سنگین غلطیوں کی نشاندہی بھی کی ہے۔2021تک گردشی قرضے،ناکام سرکاری ادارے، تجارتی خسارے، افراط زر اور برامدات سے دگنی درامدات پاکستان میں مشکلات میں اضافہ کرتے رہیں گے جس کا سارا ملبہ عوام پر ڈالا جائے گا۔ لوگ جو پہلے ہی مہنگائی کی وجہ سے بستر مرگ تک پہنچ گئے ہیں جنکی حالت مزید پتلی ہو جائے گا۔انھیں تبدیلی کے خواب کی بھیانک تعبیر ملی ہے جس سے ملک بھر میں مایوسی پھیلی ہوئی ہے۔ان حالات میں ہمارے رہنما چار ہفتے میں نوکریوں کی بارش، گھروں کے سونامی اور اربوں روپے کے فلاحی منصوبوں کے اعلانات کر رہے ہیں جو عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔عوام ڈراموں سے بے زار آ چکے ہیں۔انھیں نظر آ رہا ہے کہ کرپٹ مافیاتو سکون سے ہے مگر مجبور عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں۔مہنگے قرضے حاصل کرنے کو کامیابی کا معیار سمجھا جا رہا ہے جبکہ عوام ڈراموں سے بے زار آ چکے ہیں۔