واشنگٹن(آن لائن) امریکی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ بھارت کی جانب سے پاکستانی طیارہ گرانے اور بالاکوٹ میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے ثبوت پیش کرنے میں ناکامی کے سنگین سیاسی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔مائیکل کوگلمین ایک ماہر ہیں اور واشنگٹن کے وْڈ رو ولسن سینٹر سے منسلک ہیں جس نے 2019 کی پاک بھارت صورتحال پر ایک دستاویز جاری کی تھی۔
اپنے تعارفی نوٹ میں واشنگٹن کے ادارے نے خبردار کیا کہ حالیہ پاک بھارت کشیدگی نے دنیا کو خبردار کردیا ہے کیونکہ جوہری صلاحیت کے حامل دونوں ملکوں نے بحران کے دوران کشیدگی بڑھانے کے حوالے سے اپنے عزائم کا اظہار کر چکے ہیں۔کوگلمین نے خبردار کیا کہ بھارت کی جانب سے اپنے دعوے ثابت کرنے میں ناکامی کے سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔امریکی ماہر نے یہ انکشاف ایک ایسے موقع پر کیا ہے کہ جب ایک دن قبل ہی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے انکشاف کیا تھا کہ بھارت پا کستا ن پرایک اور جارحیت کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ کچھ ٹھوس شواہد ہیں جو بھارت کے دو بنیادی دعوؤں کی نفی کرتے ہیں جو بھارت نے پاکستان کے ساتھ محاذ آرائی کے حوالے سے کیے تھے، بالاکوٹ میں دہشت گرد اہداف کو نشانہ بنانا اور پاکستان کا طیارہ مار گرانا، اس کے انتخابات سے قبل سنگین سیاسی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔کوگلمین نے ساتھ ساتھ کرسٹوفر کیری کی ٹوئٹ کی جانب سے بھی اشارہ کیا جو نیویارک کی اسٹیٹ یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور انہوں نے لکھا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ امریکا جانتا ہے کہ وہ ایک ایف16 سے محروم ہو گیا ہے لیکن وہ اپنے تجارتی فائدے اور فخر کے سبب یہ تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔
میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ امریکی بیورو کریسی میں پاکستان کے متعدد دشمن ہیں اور شاید (کیپیٹول) ہل میں اور زیادہ ہیں اور میرے خیال میں اگر پاکستان ایف16 سے محروم ہوتا تو امریکی بخوشی اس خبر کو لیک کر دیتے۔کوگلمین نے اس پر ٹوئٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں اس سے اتفاق کرتا ہوں، اگر پاکستان کا ایف16 طیارہ گرایا گیا ہوتا تو امریکی حکومت میں سے کوئی بخوشی اس خبر کو لیک کر دیتا۔انہوں نے امریکی صحافی کے انکشاف کی جانب بھی اشارہ کیا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے پاس کچھ ہے جسے وہ ووٹنگ سے محض کچھ دیر قبل استعمال کریں گے۔
کوگلمین نے مزید کہا کہ بالاکوٹ کی کارروائی اور اس کے نتیجے میں جو کچھ ہوا، اسے عوام نے جس طرح لیا، وہ بھارت کے نزدیک مطلوبہ سے بہت کم تھا۔بھارتی میڈیا رپورٹ کر رہے ہیں کہ پاکستان نے اپنا نقصان چھپانے کے لیے اردن سے ایف16 طیارہ لیا جس پر کوگلمین نے کہا کہ یہ ممکن نہیں کیونکہ اردن پاکستان کو غیر قانونی طور پر ایف16 بیچنے کے لیے امریکی جانب سے ملنے والی سالانہ 1.275ارب ڈالر کی امداد کو خطرے میں نہیں ڈال سکتا۔
اس بحث کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب امریکی فارن پالیسی میگزین نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کرتے ہوئے بھارت کے اس دعوے کو مسترد کردیا تھا کہ اس نے 27فروری کو پاکستان کا ایک ایف16 طیارہ گرایا ہے جہاں ایک دن قبل بھارت نے پاکستان کے بالا کوٹ میں جارحیت کرتے ہوئے شدت پسندوں کے کیمپ تباہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا لیکن وہ بھی غلط ثابت ہوا تھا۔وْڈ رو ولسن سینٹر کی جانب سے جاری دستاویزات میں امریکی ماہرین نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان دوبارہ کشیدگی کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔
ایک ماہر نے کہا کہ بہت کچھ بھارت میں انتخابات پر منحصر ہے، اگر حکمران جماعت دوبارہ منتخب ہو جاتی ہے تو حالات مزید سنگین ہو جائیں گے۔انہوں نے خبردار کیا کہ اگلی کشیدگی مزید بدترین ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ دونوں فریقین بخوشی کشیدگی بڑھانے کے عزائم ظاہر کر چکے ہیں۔کوگلمین نے خبردار کیا کہ اگر بھارت میں ایک اور دہشت گرد حملہ ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں بھارت کا ردعمل انتہائی تباہ کن ہو سکتا ہے۔
اگر ایسا ہوا تو آپ کو جوہری جنگ کے منظر نامے کے بارے پریشانی شروع ہو جانی چاہیے۔وْڈ رو ولسن کے ایک اور ماہر آرون ڈیوڈ ملر نے ہنری کسنجر کے اس مشہور مزاحیہ جملے کا حوالہ دیا کہ اسرائیل کی کوئی خارجہ پالیسی نہیں، صرف ڈومیسٹک پالیسی ہے اور میں کشمیر پر یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ وہ پاکستان اور بھارت دونوں کا ساتھ دیں گے۔ان دستاویزات میں سے ایک میں سابق بھارتی سیکریٹری خارجہ اور امریکی سفیر نیروپوما رائے کا حوالہ دیا گیا جنہوں نے کہا تھا کہ اکثر بھارتی اپنے ملک کو دہشت گردی سے متاثرہ سمجھتے ہیں۔
بھارت میں کوئی بھی حکومت اس مشہور رائے اور تاثر کے خلاف نہیں جا سکتی جہاں بھارت کا میڈیا بھی اس تاثر کو ہوا دے رہا ہے۔پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ سلمان بشیر نے خبردار کیا کہ مسائل کے حل کے لیے طاقت کا استعمال خطرناک ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ طاقت کے استعمال سے صورتحال مزید کشیدہ ہو گی، پاکستان کا یہ ماننا ہے کہ ہماری امن کی خواہش کو ہماری کمزوری تصور نہیں کیا جائے۔