اسلام آباد(اے این این ) سپریم کورٹ نے لال مسجد آپریشن کیس میں ریمارکس دیے کہ فوجداری کارروائی بنتی ہے تو متعلقہ فورم پر ہوگی۔منگل کو جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے لال مسجد آپریشن کیس کی سماعت کی۔ کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی(سی ڈی اے)کے وکیل کے بغیر تیاری اور تاخیر سے آمد پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا۔
جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ لال مسجد کتنے رقبے پرقائم ہوئی اور زمین کس کی ملکیت ہے؟۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ لال مسجد سرکاری زمین پر قائم ہے۔ لال مسجد کے وکیل طارق اسد نے بتایا کہ وقت کے ساتھ ساتھ لال مسجد کو توسیع دی گئی۔ اس پر جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ مسجد کی خلاف قانون توسیع اسلام میں بھی منع ہے۔طارق اسد نے کہا کہ ایسے سوالات کے جواب دینا مناسب نہیں سمجھتا تو جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ طارق اسد صاحب یہ ہی تو اصل بات ہے۔ طارق اسد نے کہا کہ مجھے معلوم ہے کیس فارغ کردیا جائے گا۔ جسٹس فائزعیسیٰ نے کہا کہ طارق اسد آپ کس کے وکیل ہیں؟۔ طارق اسد نے کہا کہ میں لال مسجد کا وکیل ہوں۔ جسٹس فائزعیسیٰ نے کہا کہ لال مسجد تو کوئی ادارہ ہی نہیں ہے۔ طارق اسد نے کہا کہ مولانا عبدالعزیز اورام حسان کا وکالت نامہ جمع کرایا ہے۔جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ لال مسجد میں کتنے افراد مارے گئے یہ الگ بات ہے، لال مسجد کمیشن رپورٹ آگئی اب ہم کیا کریں؟ اگر کوئی فوجداری کارروائی بنتی ہے تو متعلقہ فورم پر ہوگی۔ طارق اسد نے کہا کہ عدالت کچھ نہیں کر سکتی تو کیس بند کردے۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ آپ کو معاونت کا کہیں تو کہتے ہیں جواب دینا مناسب نہیں۔ سپریم کورٹ نے سماعت میں وقفہ کردیا اور بعد میں سماعت ملتوی کر دی گئی۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے9 جولائی 2007 کو لال مسجد آپریشن کے دوران لال مسجد آپریشن کا از خود نوٹس لیا تھا۔